Saturday 18 June 2016

سلطنتِ روم و ایران


بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت دنیا میں دو سلطنتیں سب سے بڑی تھیں اوروہی گویا تمام قابل تذکرہ دنیا پر چھائی ہوئی تھیں، ایک روم کی سلطنت اور دوسری ایرانی شہنشاہی،اُس وقت دنیا میں صرف دوہی تمدن تھے،آدھی دنیا پر رومی تمدن چھایا ہوا تھا اورآدھی پر ایرانی، ملک عرب جو بالکل کس مپرسی اورتاریکی کے عالم میں پڑا تھا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا اور اسلام کے ذریعہ ایک نئی سلطنت اورنئے تمدن کی ابتدا ہوئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ عربی یا اسلامی سلطنت کے مقابلے میں رومی وایرانی سلطنتیں اور رومی وایرانی ہوا ہوکر فنا ہوگئے اورساری دنیا اسلامی حکومت اوراسلامی تمدن کے زیر سایہ زندگی بسر کرنے لگی، اس اجمال کی تفصیل آئندہ اوراق میں پیش کریں گے اب چونکہ عرب کی سلطنت اوررومی وایرانی سلطنتوں کی زور آزمائی شروع ہونے والی ہے اوربہت جلد ہم ایران وروم کو عرب کے مقابلہ میں ریزہ ریزہ ہوتے ہوئے دیکھنے والے ہیں،لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں مشہور ومتمدن سلطنتوں سے بقدر ضرورت واقف ہوجائیں ۔
کسی زمانہ میں ایرانی سلطنت بحرۂ روم ،بحرۂ اسود، خلیج فارس،دریائے سندھ ،کشمیر ،تبت کوہ الٹائی بحیرہ کاسپین تک وسیع تھی،کیانی خاندان کی حکمرانی اور رستم زابستان کی پہلوانی کا زمانہ گذرنے کے بعد اسکندر یونانی نے سلطنت ایرانی کو پارہ پارہ کردیا تھا،لیکن تمدن ایرانی باقی رہا تھا،بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے چار سو سال پیشتر اروشیربابکاں نے ساسانی خاندان کی بنیاد ڈالی،ساسانی خاندان نے کیانیوں کی وسیع سلطنت کے اکثر حصوں کو اپنی مملکت میں شامل کرکے خلیج فارس دریائے فرات بحرۂ کاسپین دریائے سندھ دریائے جیحون کے درمیان ایک وسیع اورٹھوس سلطنت قائم کرکے تمام برا اعظم ایشیا کی سیادت حاصل کرلی۔
رومیوں کی سلطنت کا مرکز سلطنت اٹلی کا شہر روما تھا جس میں جولیس سیزرزیسنٹ انموسطس وغیرہ شہنشاہ گذر چکے ہیں، اس سلطنت میں قریباً تمام برااعظم یورپ اورمصر وایشیا ئے کوچک شامل تھا کچھ عرصہ کے بعد اس رومی شہنشاہی کے دو ٹکڑے ہوگئے مغربی حصہ کا دارالسلطنت تو شہر روماہی رہا،لیکن مشرقی حصہ کا دارالسلطنت شہر قسطنطنیہ قرار پایا،قسطنطنیہ کے قیصر کو بھی قیصر روم ہی کے نام سے پکارا جاتا تھا،جس کے تحت وتصرف میں مصر وحبش وفلسطین وشام وایشیائے کوچک وبلقان کے ممالک تھے،اس مشرقی رومی سلطنت کی شان وشوکت اورقوت وسطوت کے آگے مغربی روم کی حیثیت وحقیقت ماند پڑگئی تھی،ایشیائے کوچک اورعراق کے میدانوں میں ان دونوں شہنشائیوں یعنی رومی وایرانی سلطنتوں کی حد فاصل کوئی قدرتی چیز یعنی پہاڑ وسمندر وغیرہ کے نہ ہونے سے کبھی کبھی ایک دوسرے سے ٹکرانے اورمعرکہ آرا ہونے کا بھی موقع آجاتا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت ایران کا شہنشاہ نوشیروانِ عادل ساسانی تھا،آپ کی بعثت کے وقت ایران پر نوشیروان عادل کا پوتا خسرو پرویز متمکن تھا اور قسطنطنیہ میں ایک زبردست بغاوت قیصر فوقا کے خلاف نمودار ہوئی،امرائے سلطنت اوررعایائے ملک نے فوقا کو تخت سے اُتار کر قتل کردیا اورافریقہ مقبوضات کے گورنر یعنی فرماں روائے مصر کو قسطنطیہ کے تخت پر بٹھانے کی دعوت دی،گورنر افریقہ تو پیرانہ سالی کی وجہ سے نہ جاسکا، لیکن اُس کا جوان العمر وجواں بخت بیٹا ہر قل قسطنطنیہ میں تخت نشین ہوگیا اور ہر قل کی شہنشاہی کو ارکان سلطنت نے بخوشی تسلیم کرلیا ،مقتول قیصر فوقا اورخسرو پرویز کے درمیان دوستی ومحبت کے تعلقات تھے کیونکہ خسرو پرویز نے رومی سلطنت یعنی ہر قل پر حملہ کیا ایک ایسے شخص کے تخت نشین ہونے کے بعد جو وراثتاً تخت وتاج کا حق دار نہ تھا ،ایرانیوں کے لئے سلطنت روم پر حملہ آور ہونے کا بہترین موقع تھا، ایرانیوں اور رومیوں میں لڑائی شروع ہوئی،ان لڑائیوں کا سلسلہ چھ سات سال تک جاری رہا،بالآخر نتیجہ یہ ہوا کہ بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے آٹھویں سال ایرانیوں نے شام کا ملک فتح کرکے بیت المقدس پر قبضہ کیا اورعیسائیوں سے صلیب چھین کرلے گئے،ساتھ ہی فلسطین کے تمام ملک کو فتح کرکے اسکندریہ تک پہنچ گئے۔
مشرکین مکہ نے ایرانیوں کی ان فتوحات کا حال سُن کر بڑی خوشیاں منائیں؛ کیونکہ رومی اہل کتاب اورایرانی مشرک تھے مسلمانوں کو مشرکوں کے مقابلہ میں اہل کتاب سے ہمدردی تھی، اس لئے اس خبر سے مسلمان رنجیدہ ہوئے،خدائے تعالیٰ نے سورۂ روم کی آیات نازل فرمائیں اور ان میں اطلاع دی کہ اگرچہ رومی اس وقت میں مغلوب ہوگئے ہیں؛ لیکن چند سال کے بعد غالب ہوجائیں گے اورمسلمان اس وقت مسرور ہوں گے ؛چنانچہ ایسا ہی ہوا ،ہر قل چھ سات سال تک برابر فوجی تیاریوں میں مصروف رہا،اس عرصہ میں اس نے اپنے ملک کے اندرونی انتظامات پر بھی پورے طور پر قابو پالیا ،ایرانیوں کو اپنی حدود مملکت سے نکالنے اور سابقہ ہزیمتوں کا انتقام لینے کے لئے نکلا اوربالآخر ملک شام کے میدانوں میں رومی لشکر نے ایرانیوں کو فیصلہ کن شکست دی،ایرانی بھاگے اور قیصر روم نے اپنے علاقے ایرانیوں سے خالی کرالینے کے علاوہ ایرانیوں کے بعض صوبوں پر بھی قبضہ کرلیا۔
ادھر رومیوں نے ایرانیوں پر فتح عظیم حاصل کی،ادھر بدر کے میدان میں مسلمانوں نےکفار مکہ کو شکست فاش دی اورقرآن کریم کی پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی، اس کے بعد بھی ایرانیوں اور رومیوں میں لڑائی کا سلسلہ جاری رہا،۷ھ کے ابتدا میں رومیوں اورایرانیوں کے درمیان صلح ہوگئی اورایرانیوں نے وہ صلیب جو بیت المقدس سے لے گئے تھے رومیوں کو واپس کردی، اس صلح نے ہر قل کی فتوحات کو ایک طرف مکمل کردیا، دوسری طرف ایرانیوں نے اپنے کھوئے ہوئے علاقے اورصوبے رومیوں سے واپس لئے لہذا ایرانی و رومی دونوں درباروں میں بیداری کے علامات نمایاں تھے، اوردونوں اپنی اپنی ترقی ومضبوطی کے لئے مناسب تدابیر میں مصروف ہوگئے تھے ۔



اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہوں کے نام خطوط روانہ کئے،کیانیوں کے زمانے میں ایران کا دارالسلطنت مدائن تھا،اُدھر ہر قل اپنی فتوحات اور صلیب کے واپس ملنے کی خوشی میں زیارت کے لئے بیت المقدس آیا ہوا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط خسرو پرویز کے پاس مدائن میں ہر قل کے پاس بیت المقدس میں پہنچا ،خسرو پرویز نے آپ کے نامۂ گرامی کوچاک کردیا اورہر قل نے تکریم وعزت کے ساتھ اس خط کو لیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایرانی بادشاہ کی حرکت نامعقول کا حال سُن کر فرمایا کہ اُس کی سلطنت پارہ پارہ ہوجائے گی خسرو پرویز نے یہی نہیں کہ آپ کے خط اور قاصد کے ساتھ گستاخی کی ؛بلکہ اپنے عامل باذان والئ یمن کو لکھا کہ اس عربی پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرکے ہمارے پاس بھیج دو،باذان نے دو آدمی مدینے میں بھیجے،وہ دونوں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور خسروپرویز کے حکم سے اطلاع دی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو اپنا خدا سمجھتے ہو یعنی خسرو پرویز،وہ رات اپنے بیٹے کے ہاتھ سے مارا گیا، یہ دونوں جب باذان کے پاس واپس پہنچے تو وہاں مدائن سے اطلاع پہنچی کہ خسرو پرویز کو اُس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کردیا ہے،یہ واقعہ ٹھیک اُسی رات کا تھا جس رات کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،باذان گورنر یمن مسلمان ہوگیااور اس طرح ملک یمن میں بہت جلد اسلام پھیل گیا ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باذان ہی کو یمن کا عامل رکھا ،شیرویہ کو اس قدر مہلت ہی نہ ملی کہ وہ اندرونی جھگڑوں سے فارغ ہوکر عرب اورمسلمانوں کی طرف متوجہ ہوتا چند روز کے بعد اُس کی جگہ اُس کا کمسن بچہ تخت ایرانی پر بٹھایا گیا جس کا نام اردشیر تھا، اس کمسن ارد شیر کو ایرانی سپہ سالار شہر یار نامی نے چند مہینے کے بعد قتل کرکے خود تخت سلطنت پر جلوس کیا،چند روز کے بعدارکان سلطنت نے اس کو قتل کرکے شیرویہ کی بہن اور خسرو پریز کی بیٹی بوران کو تخت پر بٹھایا جو صرف ایک سال چند ماہ حکمراں رہی ،اُسی کے زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی بوران کے بعد کئی نو عمر لڑکے اور عورتیں یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوئیں،آخر میں یزد جروتخت نشین ہوا جس کے زمانے میں ایران پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا، غرض جس روز سے خسرو پرویز نے نامۂ نبوی چاک کیا تھا اسی روز سے ایرانی سلطنت کا قصر رفیع قدرتی طور پر منہدم ہونا شروع ہوگیا تھا اورایران کے تخت پر بجائے ملک گیر وملک دار عالی ہمت بادشاہوں کے لڑکوں اور عورتوں نے قبضہ پالیا تھا ایرانی سلطنت کے قبضہ سے اس کا ایک صوبہ یعنی یمن کا ملک نکل چکا تھا،اس لئے ایرانیوں کو مسلمانوں سے اوربھی زیادہ عداوت ہوگئی تھی۔
ایرانی مشرک ہونے کی وجہ سے زیادہ متکبر ومغرور تھے،لہذا وہ عربوں کو زیادہ حقیر سمجھ کر اُن کی قوت واستقلال کی خبریں سُن سُن کر زیادہ بے چین اور مسلمانوں کے استیصال پر زیادہ آمادہ تھے؛ لیکن قدرت نے ان کو اس طرح اندرونی جھگڑوں اور بادشاہوں کے عزل ونصب کی مصیبتوں میں گرفتار کردیا تھا کہ ملک عرب کی طرف جلدی متوجہ نہ ہوسکتے تھے،منافقین مدینہ اوریہودان مدینہ نے جو جلاوطن ہوئے تھے بہ تواتر دربار مدائن میں اپنے زبان آور اورچالاک ایلچی بھیج بھیج کر ایرانیوں کو مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لئے اُبھارا تھا دوسری طرف ان لوگوں نے ہر قل کے دربار میں بھی اسی قسم کی کوششیں شروع کررکھی تھیں ۔
ہر قل کا دربار چونکہ اندرونی جھگڑوں سےپاک تھا،لہذا ان کو وہاں زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ،ملکِ شام کے جنوبی حصہ میں عرب قوم کے لوگ آباد تھے اوران کی بہت سی چھوٹی چھوٹی خود مختار ریا ستیں قائم تھیں ،عربی لوگ عیسائی مذہب اختیار کرچکے تھے،اورعرب مستنصرہ کے نام سے مشہور تھے،عرب مستنصرہ کی خود مختارریاستوں سے ہر قل کے دوستانہ وہمدردانہ تعلقات تھے،جب کبھی ان اعراب مستنصرہ کی ریاستوں پر ایرانیوں نے حملہ کئے تھے،تو قیصر قسطنطنیہ نے ان کی مدد وحفاظت پر آمادگی ظاہر کی،اس لئے یہ لوگ اور بھی مجبور تھے کہ اپنے آپ کو قیصر روم کی حمایت میں رکھیں؛چونکہ عربی النسل ہونے کے سبب یہ لوگ زیادہ بہادر تھے،اس لئے قیصر روم ان کے وجود کو زیادہ قیمتی سمجھتا تھا اورضرورت کے وقت ان کی جنگجویانہ قابلیتوں سے فائدہ اٹھایا کرتا تھا،ملکِ عرب میں جو ایک اسلامی سلطنت قائم ہوچکی تھی،اس اسلامی سلطنت اورقیصر روم کی سلطنت کے درمیان عرب مستنصر کی ریاستیں حد فاضل تھیں چونکہ یہ ریاستیں سب عیسائی مذہب رکھتی تھیں،اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ رومیوں اور عربوں کے درمیان تو ایک حد فاصل تھی ؛لیکن اسلامی سلطنت اورعیسائی حکومت کے درمیان کوئی حد فاصل نہ تھی، حیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جب عیسائی ریاستوں اور مسلمانوں کے درمیان مقابلہ مقاتلہ کی نوبت پہنچی تو ایک طرف ان اعراب مستنصرہ نے ہر قل سے مدد کی درخواست کی دوسری طرف منافقوں اوریہودیوں کی ریشہ دوانیوں نے دربار ہرقل کو مسلمانوں کی بیخ کنی پر آمادہ ومستعد کیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس زمانہ میں ہر قل کے پاس خط بھیجا تھا،اسی زمانہ میں بصرہ ود مشق کے رئیسوں کی طرف بھی خط روانہ کئے تھے،لیکن ان دونوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچیوں کے ساتھ بُرابرتاؤ کیا تھا؛چنانچہ بصرہ کے حاکم شرجیل نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی حارثؓ کو شہید کردیا تھا،آنحضرتﷺ حضرت زید بن حارث کو شرجیل بن عمرو غسانی سے حضرت حارث کا انتقام لینے کے لئے روانہ کیا اورجنگ موتہ میں حضرت زیدؓ،حضرت جعفرؓ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ شہید ہوئے،اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے لڑائی کی حالت کو سنبھالا اس جنگ میں ہر قل کی فوجوں نے شرجیل غسانی کی حمایت میں مسلمانوں کا مقابلہ کیا.
رومیوں نے اس کے بعد ملکِ عرب پر چڑھائی کی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود چشمہ تبوک تک لشکر لے کر جانا پڑا، اس وقت رومی سامنے سے ٹل گئے اور کوئی بڑی لڑائی نہ ہوئی، بلکہ انہیں اعراب مستنصرہ کی ریاستوں سے جزیہ لے کر اوراُن پر رعب قائم کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو خبر سنی کہ ہر قل ملک عرب پر حملہ کی تیاریاں کرہا ہے اورسرحد شام پر فوجیں جمع ہو رہی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُسامہؓ بن زید کو اس طرف روانہ کیا،لیکن آپ کی علالت کی وجہ سے یہ لشکر مدینے کے باہر رکارہا، اورآخر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلیفہ ہوکر اس لشکر کو روانہ کیا،یہ لشکر سرحد شام تک گیا اور وہاں کے سرکش وباغی رؤساء کو درست کرکے واپس چلا آیا۔
ہرقل کی فوجوں سے اس لئے مقابلہ پیش نہ آیا کہ رؤسا عرب مستنصرہ میں سے بعض بطیب خاطر اسلام کو حق سمجھ کر تسلیم کرچکے تھے اور ہر قل متامل تھا کہ یہ سرحدی ریاستیں اسلام میں داخل ہونے وال ہیں یا عیسائیت پر قائم رہ کر مسلمانوں کے مقابلہ پر مستعد ہونے والی ہیں،محض ان ریاستوں کی وجہ سے جو کئی بار اسلامی طاقت کے نظارے دیکھ چکی تھیں اوراصول اسلامی سے واقف ہوکر اسلام کی طرف مائل نظر آتی تھیں ہر قل کو لڑائی کے لئے اقدام میں تامل تھا، وہ خود بھی اسلامی صداقت کا دلی طور پر معترف تھا،لہذا ایک طرف مسلمانوں کی ترقی اُس کے زوالِ سلطنت کا پیغام تھا اور وہ مسلمانوں کی طاقت کوپیش از خطرہ مٹادینا چاہتا تھا دوسری طرف چونکہ اُس کو انجام اورنتیجہ مشتبہ نظر آتا تھا،لہذاا ٓئندہ بہترین موقع کے انتظار میں وہ جنگ کو ٹالتا تھا،بہرحال وہ ہرقل جو ایرانیوں کی عظیم الشان شہنشاہ ہی کو نیچا دکھا چکا تھا وہ ہمہ تن اسلامی طاقت کے برباد کرنے کی طرف متوجہ تھا اورکسی مناسب موقعہ کو ہاتھ سے گنوادینے والا نہ تھا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔