Saturday 18 June 2016

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی لشکر کو نصیحتیں


واپسی کے وقت ابوبکرؓ فوج کے سامنے کھڑے ہوئے اور یہ تقریر فرمائی:
(۱)خیانت نہ کرنا۔
(۲)جھوٹ نہ بولنا۔
(۳)بد عہدی نہ کرنا۔
(۴)بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا۔
(۵)کسی ثمردار درخت کو نہ کاٹنا نہ جلانا۔
(۶)کھانے کی ضرورت کے سوا اونٹ بکری گائے وغیرہ کو ذبح نہ کرنا ۔
(۷)جب کسی قوم پر گزرو تو اس کو نرمی سے اسلام کی طرف بلاؤ
(۸)جب کسی سے ملو اُس کے حفظ مراتب کا خیال رکھو۔
(۹)جب کھانا تمہارے سامنے آئے تو اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو۔
(۱۰)یہودیوں اور عیسائیوں کے ان لوگوں سے جنہوں نے دنیا وی تعلقات سے الگ ہوکر اپنے عبادت خانوں میں رہنا اختیار کر رکھا ہے،کوئی تعرض نہ کرو،اُن تمام کاموں میں جن کے کرنے کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو دیا،نہ کمی کرنا نہ زیادتی اللہ کے نام پر اللہ کی راہ میں کفار سے لڑو۔
اسامہ کو یہ نصیحت کی:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں جو کچھ کرنے کا حکم دیا تھا وہ سب کچھ کرنا۔ جنگ کی ابتداء قضاعہ سے کرنا۔ اس کے بعد آبل جانا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی بجا آوری میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنا۔
یہ نصیحتیں فرما کر ابوبکرؓ تو عمرؓ کے ہمراہ مدینہ واپس آ گئے اور اسامہؓ شام روانہ ہو گئے۔ مئی کا مہینہ تھا اور سخت گرمی کے دن تھے۔ لشکر تپتے ہوئے صحراؤں اور جنگلوں کو قطع کرتا ہوا بیس روز بعد بلقاء پہنچ گیا۔ بلقاء کے قریب ہی جنگ موتہ ہوئی تھی جس میں اسامہؓ کے والد زید بن حارثہ اور ان کے دونوں ساتھی جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ شہید ہوئے تھے۔ اسامہ نے اپنے لشکر کو وہیں ٹھہرایا اور فوج کے مختلف دستوں کو آبل اور قبائل قضاعہ پر دھاوا بولنے کے لیے روانہ کیا۔ ان جنگوں میں مسلمانوں نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ بے شمار رومی مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے، کثیر مال غنیمت ہاتھ آیا اور اس طرح اسامہؓ اپنے والد کا انتقام لینے میں کامیاب ہو گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ کو حملہ کرنے کے متعلق جو ہدایات دی تھیں انہوں نے ان پر پوری طرح عمل کیا۔ جہاں جہاں جانے کے لیے آپ نے ارشاد فرمایا تھا وہاں گئے اور آپ کی ہدایات کے مطابق دشمن پر اس طرح اچانک حملہ کیا کہ جب تک مسلمانوں کے دستے رومیوں کے سروں پر نہ پہنچ گئے انہیں مسلمانوں کی آمد کا مطلق پتا نہ چل سکا۔ اور فتح کے بعد فوراً مدینہ واپس آ گئے۔
دشمن پر کامیابی حاصل کرنے کی وجہ سے اسامہ کی شان اور عزت و توقیر میں بے حد اضافہ ہو گیا۔ وہی مہاجرین اور انصار جنہوں نے اس سے پہلے تقرر اسامہ کی مخالفت کی تھی، اب خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ وہ بڑے فخر سے اسامہ کے کارنامے بیان کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول بار بار دہراتے تھے: اسامہ امارت کے لائق ہے اور اس کا باپ بھی امارت کے لائق تھا۔
اسامہ نے اس مہم میں صرف سرحدی جھڑپوں پر اکتفا کی۔ انہوں نے رومیوں کا تعاقب کرنے اور رومی سرحد پر بھرپور حملہ کر کے اندرونی علاقوں میں گھس کر اپنی کامیابی سے مزید فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کی کیونکہ ان کا مطمح نظر صرف یہ تھا کہ عرب کی سرحد رومیوں کے حملے سے محفوظ رہے اور رومی مسلمانوں کو کمزور پا کر مدینہ سے یہودیوں کی جلا وطنی کا انتقام لینے کے بہانے عرب کی سرحدوں میں گھس کر اسے اپنے گھوڑوں کے سموں سے پامال نہ کرنے پائیں۔
اس مہم کا باغی عربوں اور رومیوں وغیرہ فریقوں پر اس کا دور رس اثر پڑا۔ جب باغی اور مرتد قبائل نے لشکر اسامہؓ کی روانگی کی خبر سنی تو وہ کہنے لگے اس لشکر کے بھیجنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان زبردست قوت و طاقت کے مالک ہیں اگر ان کے پاس قوت و طاقت نہ ہوتی تو وہ ہرگز ایسے موقع پر اس لشکر کو نہ بھیجتے۔ جب سارا عرب ان کے خلاف متحد ہو چکا ہے۔
ہرقل کو بھی جب اسلامی لشکر کی آمد کی اطلاع ہوئی تو اس نے ایک بڑی فوج مسلمانوں سے مقابلے کے لیے بلقاء روانہ کی۔ یہ واقعات صراحتہً اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس جنگ کے باعث رومی اور مرتد عرب قبائل دونوں مسلمانوں کی قوت و طاقت سے مرعوب ہو گئے اسی وجہ سے دومۃ الجندل کے سوا عرب کے شمالی حصے کے رہنے والوں نے مدینہ پر حملہ کرنے میں پس و پیش کیا حالانکہ اس سے قبل ان کا مصمم ارادہ تھا کہ مدینہ پر چڑھائی کر کے مسلمانوں کو رومی سرحدوں پر حملہ کرنے کا مزہ چکھایا جائے۔
اس سے قبل تفصیل سے بتایا جا چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری دور میں بغاوت کی روح کس طرح عرب قبائل میں سرایت کر گئی تھی اور کئی قبائل میں نبوت کے مدعی پیدا ہو گئے تھے۔ اگر آپ کی غایت درجہ حزم و احتیاط اور مسلمانوں کی جانب سے قوت و طاقت کے مظاہروں کی وجہ سے ان قبائل اور مدعیان نبوت کو خوف و خطر لاحق نہ ہوتا تو آپ کی زندگی ہی میں ہر طرف سے بغاوت کے علم بلند ہو جاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد باغیوں کے حوصلے بلند ہو گئے اور انہوں نے اپنے خطرناک مخفی ارادوں کا اظہار کھلم کھلا شروع کر دیا۔
اس وقت مسلمان قلت تعداد اور کثرت اعداء کی وجہ سے بے حد مضطرب تھے۔ اگر اس نازک موقع پر ابوبکرؓ کی طرف سے بلند پایہ سیاست کا مظاہرہ نہ کیا جاتا اور مضبوط و محکم پالیسی وضع نہ کی جاتی تو مسلمانوں کا خاتمہ عین ممکن تھا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔