Saturday 18 June 2016

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و حمایت


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرتبہ قریش میں بہت بلند تھا۔ آپ کا شمار قبیلے کے معز ز ترین افراد میں ہوتاتھا۔ علاوہ ازیں بنو ہاشم بھی آپ کی حمایت پر تھے لیکن ان باتوں کے باوجود آپ قریش کی ایذ ا رسانیوں سے بچ نہ سکے۔ یہی حال ابوبکرؓ کا بھی تھا۔ انہیں بھی شہر کا سربرآوردہ فرد ہونے کے باوجوود محض اسلام لانے کے جرم میں قریش کے مظالم کانشانہ بننا پڑتاتھا۔ لیکن اساس پر جب کبھی آپ نے دیکھا کہ قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیفیں پہنچا رہے ہیں تو انہوں نے جان تک کی پرواہ نہ کرتی ہوئے اپنے آپ کو حضورؐ کے بچانے کے لیے پیش کر دیا۔
ابن ہشام اپنی سیرت میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قریش کے ہاتھوں سب سے زیادہ ترکلیف ا س وقت پہنچی جب بت پرستی کی مذمت میں آیات نازل ہوئیں۔ وہ لوگ خانہ کعبہ میں اکٹھے ہوئے اور ایک شخص دوسرے سے کہنے لگا کہ تم نے سن لیا محمد ہمارے بتوں کے متعلق کیا الفاظ کہتا ہے۔ یہ محض تمہاری کمزوری کی وجہ سے ہوا ہے۔ وہ تمہارے دین اور تمہارے بتوں کے متعلق جس قسم کے الفاظ چاہتا ہے کہتا ہے لیکن تم خاموش رہتے ہو۔ ابھی وہ یہ باتیں کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ادھرسے گزرے۔ جب انہوں نے آپ کو دیکھاتو ایک دم آپ پر چھپٹ پڑے اور کہنے لگے’’ تم ہمارے بتوں کے متعلق یہ الفاظ استعمال کرتے ہو ؟ ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’بے شک میں نے یہی الفاظ کہے ہیں‘‘َ اس پر ایک آدمی نے آپ کی چادر چھین لی اور اسی سے آپ کا گلا گھونٹنے لگا ۔ اتنے میں ابوبکرؓ بھی ادھر سے گزرے انہو ں نے یہ دیکھ کر کفار کے نرغے سے آپؐ کو چھڑایا اور ان سے کہا’’کیا تم ایک شخص کو محض اس لیے قتل کر ڈالنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا ر ب اللہ ہے؟‘‘ راوی ذکر کرتاہے کہ یہ وہ دن تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفارکے ہاتھوں سے سخت ترین تکلیف پہنچی۔
صرف اسی موقع پر نہیں بلکہ بعد میں بھی اکثر مواقع پر ابوبکرؓ نے خدا کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان کامل کا ثبوت دیا۔ ان کے اسی جذبہ ایمان کو دیکھ کر بعض مستشرقین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کا اعتراف کرنا پڑتاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابوبکرؓ کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی قسم کے دنیاوی فائدے کی توقع نہ تھی۔ اس کے برعکس وہ شب و روز یہ دیکھتے تھے کہ مکہ والے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہر قسم کی تکلیفیں دیتے آپ کا مذاق اڑاتے اور آپ کے ماننے والوں کو تنگ کرتے ہیں۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دعوے میں جھوٹے ہوتے تو ابوبکرؓ جیسے عقل مند اور مدبر شخص کو آپ ؐ پر ایمان لانے آپؐ کے دعوے کی تصدیق کرنے آپؐ کی ہر طرح کی مد د کرنے اور قریش میں خود اپنی پوزیشن خراب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ محض اپنی عقل و فراست کے بل بوتے پر اپنے اندر وہ ایمان پیدا نہ کر سکتے تھے کہ جو انسان کوتمام خطرات سے بے پروا کر کے اس میں شدید تڑپ اور دھن پیدا کرتا ہے جس ایمان کا مظاہرہ ابوبکرؓ نے کیا اور جس طرح انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر قول و فعل کی تصدیق کی وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام یقینا خدا ک یطرف سے ہے کیونکہ ایک باطل مذہب اور ایک جھوٹا شخص کبھی اپنے ماننے والوں کے دلو ں میں ایسا ایمان پیدا نہیں کر سکتا۔

خادم اولین
بے شک حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ اور حضرت عمر بن خطابؓ نے بھی اسلام کی سربلندی اور اس کی اشاعت کے لیے زبردست کوشش کی اوران کے ذریعے سے دین کو بے حد تقویت پہنچی۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ کہنے میں ذرا تامل نہیں کہ ابوبکرؓہی وہ شخص تھے جنہیں اللہ نے سب سے پہلے اپنے دین کی خدمت کے لیے چنا۔ دین اسلام اور اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نیک نفس اور انتہائی رقیق القلب شخص کے دل میں وہ قوت ایمانی پید اکر دی تھی کہ جس کا پید اکرنا دنیا میں کسی بھی طاقت کے بس میں نہ تھا۔ اور ایک ابوبکرؓ کی مثال سے معلوم ہو جاتا ہے کہ قوت ایمانی اپنے اندر کتنا زبردست اثر رکھتی ہے۔

غربا ء اور مساکین اور مظلوموں کی امداد
ابوبکرؓ نے اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں کو تبلیغ کرنے اور ان بیکس و مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی کرنے پر ہی اکتفانہ کیا جو قریش مکہ کے ہاتھوں محض اسلام لانے کی وجہ سے سخت مظالم برداشت کر رہے تھے بلکہ انہوں نے اپنا مال بھی ان غریب لوگوں پر دل کھول کر خرچ کیا جنہیں اللہ نے اسلام کی جانب رہنمائی کی تھی اور دشمنان حق نے انہیں تکالیف پہنچانے اور ان پر نت نئے مظالم توڑنے میں کوی کسر اٹھا نہ رکی تھی۔ جس روز وہ اسلام لائے ا ن کے پاس چالیس ہزار درہم موجود تھے۔ تجارت کاسلسلہ انہوں نے اسلام لانے کے بعد بھی جاری رکھا اور اس سے وافر نفع حاصل کیا لیکن اس کے باوجود جب دس سال بعد ہجرت کا وقع پیش ایا تو ان کے پاس صرف پانچ ہزار درہم باقی تھے۔ اس دوران میں انہوں نے جو کچھ کمایا اور جو کچھ پہیل پس انداز کر رکھا تھا وہ سب کا سب اللہ کی راہ میں اسلام کی تبلیغ اور ان کے غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کر دیا جو محض اسلام لانے کے جرم میں اپنے بے دین آقائوں کے ہاتھوں ہولناک سختیاں برداشت کر رہے تھے۔
ایک روز انہوں نے بلال کو دیکھاکہ ان کے آقا نے انہیں دوپہر کے وقت شدید دھوپ میں تپتی ریت پر لٹا یا اورا ن کے سینے پر پتھر رھ کر کہا کہ اسلام چھوڑ دینے کا اعلان کرو ورنہ اسی طرح مار ڈالوں گا۔ یہ دردناک منظردیکھ کر ابوبکرؓ نے انہیں ان کے آقا سے خرید کر آزاد کر دیا۔ا ااسی طرح ایک اور غلام عامر بن فہیرہ کو مسلمان ہونے کی وجہ سے سخت تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ ابوبکرؓنے انہیں بھی خریدکر اپنی بکریوں کی نگہداشت اور چرانے کا کام سپر د کر دیا اسی طرح انہوں نے اور بھی بیسیوں غلام خرید کر انہیں اللہ کی راہ میں آزاد کیا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔