Saturday 18 June 2016

الوالعزمی، برداشت اور عدل


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو پورے طور پر اپنانے سے ابوبکرؓ کی اس حقیقت کی تہہ تک پہنچ گئے تھے کہ قوی ترقی اس وقت ناممکن ہے جب تک مشکلات اور مصائب کو صبر و استقلال سے جھیلنے اور اپنے اندر ان پر قابو پانے کا ملکہ پیدا نہ کیا جائے۔ درحقیقت قوموں کی حیات و ممات کار اسی گر کو اختیار کرنے یا ترک کردینے میں مستور ہے۔ ہر وہ قوم جو عزت کی خواہاں اور اقوام عالم میں اپنا ایک علیحدہ وممتاز مقام پیدا کرنے کی خواہش مند ہو جو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اپنے پاس رکھتی ہو اور اسے یقین ہو کہ صرف اسی کے پیش کردہ پروگرا م پر عمل کرنے میں انسانیت کی جونجات اور دینا کی فلاح و بہبود مضمر ہے۔ اس کے لیے بے حد ضروری ہے کہ اپنے اندر قوت برداشت پیدا کرے۔ اس کے راستے میں خواہ مشکلات کے پہاڑ ہی کیوں نہ حائل ہوجائیں لیکن اسے عزم و استقلال سے ہر دم اپنا قد م آگے ہی بڑھانا چاہیے۔ مشکلات خواہ کتنی ہی ہیبت ناک اور مصائب کتنے ہی حوصلہ شکن ہوں لیکن باہمت قوم کو انہیں پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہ دینی چاہیے۔ اور راستے کی تمام دشواریوں اور ادائے حق کی راہ میں تمام رکاوٹوں پر نہایت جرات مندانہ اولو العزمانہ قابو پا کر منزل مقصود کی جانب قدم بڑھاتے رہنا چاہیے۔
ان اسباب کی محافظت اس وقت اور بھی ضروری ہو جاتی ہے جب ان قوموں کے لائحہ عمل اور قوت کی بنیاد عدل کے قیام اور ظلم و ستم کی بیخ کنی پر استوار ہو۔ اکثر سلطنتوں کاقیام محض اس لیے عمل میں آیا کہ انہوں نے عدل و انصاف کو اپنی اساس بنایا اور اسی کے سہارے استحکام حاصل کیا ۔ ا س کے برعکس بیشتر سلطنتیں مدت دراز تک اپنی شان و شوکت دکھانے کے بعد محض اس وجہ سے قلیل ترین عرصے میں نابود ہو گئیں کہ انہو ں نے عدل کے اہم ترین رکن کو ترک کر دیا تھا۔
ابوبکرؓ نے اپنے القا کی روشنی میں معلوم کر لیا تھا کہ اسلام عدل کا علم بردار ہے اور ذات پات اور نسل کی بنا پر بنی نوع انسان کے درمیان کسی تفریق کا حامی نہیں۔ اسی وجہ سے اس کی دعوت کسی ایک قوم کے لیے مخصوص نہیں بلکہ تمام بنی نو ع انسان کے لیے عام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں رعربوں کے علاوہ غلاموں اور عجمیوں کی ایک بڑی تعداد بھی اسلام میں داخل ہوئی لیکن کسی غلام اور عجمی سے نفرت یا حقارت کا برتائو کرنا تو کجا اسلا م نے ان کی ذلت و نکبت عز و شرف میں تبدیل کر دی اور ان کا رتبہ اس قدر بلند کر دیا کہ آج بھی ان کا ذکر آنے پر ہر مسلمان فرط عقیدت سے سر جھکا دیتا ہے۔ ان لوگوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلوک کا اندازہ اس امر سے ہو سکتاہے کہ سلمان فارسیؓ آپ کے مقربین خاص میں سے تھے زید بن حارثہؓ کو آپ نے آزاد کرکے اپنا متبنی بنا لیا تھا۔ غزوہ موتہ کے وقت لشکر کا قائد بھی انہیں کو بنایا تھا۔ اس سے پہلے بھی متعدد اہم ذمہ داری کے کام ان کے سپرد کیے تھے۔ زید کے بیٹے اسامہ کو اپنی وفات سے قبل شام پر حملہ کرنے والی فوج کا سردار مقرر کیا اور تمام بڑے بڑے مہاجرین و انصار کو جن میں ابوبکرؓ اور عمرؓ بھی شامل تھے ان کی ماتحتی میں دیا اور بازان فارسی کو یمن کا حاکم مقرر فرایا۔
ان مثالوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محض عربی یا معزز قبیلے کا فرد ہونا کسی شخص کی فضیلت کے لیے کافی نہ تھا آپ کے پیش نظر فضیلت کی کسوٹی تقویٰ اور صرف تقویٰ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاص ممشیروں اور مقرب صحابہؓ پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ کے محبوب صحابیؓ کا فرض بننے کا شرف صر ف انہیں لوگوں کو حاصل ہوا جنہوںنے ایمان و اخلاص پر قابل رشک ترقی کی اور جو دینی و ملی مفاد کی خاطر اپنی جان مال عزت اور وقت کو قربان کرنے کے لیے ہر لحظہ مستعد رہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عربوں کے دلوں سے ان کی نسبی شرافت‘ عزت اور فضیلت کا غرور بالکل نکال دیاتھا ور عربی اور عجمی آذاد اور غلام کا فرق مٹا کرانہیں ایک سطح پر لا کر کھڑ ا کیا تھا۔ ابوبکرؓ نے بھی اپنے آقا کی اس سنت پر پوری طرح سے عمل کیا اور وہ لوگوں کے درمیان صحیح اسلامی مساوات قائم کرنے میں آخر وقت تک کوشاں رہے۔
اسی مساوات کا اثرتھا کہ مسلمان ایک ایسی متحدہ قوت بن کر اٹھے جس کا مقابلہ کرنے سے ایرانی فوج اوررومی افواج قاہرہ عاجز آ گئیں اور انہیں ان مٹھی بھر لیکن آہنی طاقت والے عربوںکے سامنے بھاگتے ہی بن پڑی۔
ابوبکرؓکو اس حقیقت کا بھی پوری طرح ادراک تھا کہ اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے اور اس کی دعوت کا دائرہ صرف جزیرہ عرب تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے مخاطب دنیا کے آخری کناروں تک بسنے والے انسان ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیرون عرب کے ابادشاہوں اور فرماں روائوں کو کثرت سے تبلیغی خطوط اور فرامین ارسال فرمائے تھے۔
یہ امر تسلیم کرنے کے ساتھ ہی ہر مسلمان کا فرض ہو جاتا ہے کہ اس نے جس عظیم الشان نعمت سے حصہ لیا ہے اسے صرف اپنے تک محدود نہ رکھے بلکہ دوسروں کو بھی اس نعمت سے حصہ عطا کرے۔ او ردین خدا کی اشاعت میں جان تک کی بازی لگانے سے دریغ نہ کرے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کا پیغام بلا لحاظ قوم و ملت سب لوگوں تک پہنچا دیا۔ آپ کی تقلید میں آپ کے خلفاء کا بھی یہی فرض تھا کہ وہ دعوت اسلام کو زمین کے کناروں تک پہنچاتے اور اس راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرتے۔
ابوبکرؓنے یہی کیا اور اسلام کو اقصائے عالم تک پہنچانے میں خوئی دقیقہ سعی فروگزاشت نہ کیا۔ ا س راہ میں انہیں شدید مشکلات اور مہیب مصائب سے دوچار ہونا پڑا لیکن انہوںنے ابتدائے خلافت ہی سے جو عزم کر لیا تھا اس میں آخری لمحے تک مطلق کمی نہ آنے دی اور اپنی جدوجہد کو پایہ تکمیل تک پہنچاکر ہی چھوڑا۔ ابوبکر کی مردانہ وار کوششوں اور اولو العزمی کا نتیجہ تھا کہ اسلامی سلطنت تھوڑے ہی عرصے میں معلومہ دنیا کے اطراف تک پہنچ گئی اور صدیوں تک اسی سلطنت نے دنیا میں تہذیب و تمدن کا علم بلند اور علم و عمل کا چراغ روشن کیے رکھا۔
لمبے عرصے تک دنیا پر شان و شوکت سے حکمرانی کرنے کے بعد اسلامی سلطنت پر بھی دوسری حکومتوں اور سلطنتوں کی طرح زوال آنا شروع ہو ااو ر بالآخر وہ انتہائی نکبت اور پستی کی حالت میں پہنچ گئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس نکبت اور پستی کا سبب اسلام کے وہ بنیادی اصول تھے جن کا وہ علم بردار بن کر کھڑاہو ا تھا یا ان بنیادی اصولوں کو پس پشت ڈال دینے کے باعث مسلمانوں کو اضمحلال اور کمزوری کا سامنا کرنا پڑا؟ جو بھی شخص اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرے گا وہ اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ اسلامی سلطنت کا زوال اس وقت سے شروع ہوا جب مسمانوں نے اتحاد جیسی نعمت کو خیر باد کہہ دیا۔
ابتدا میں جزیرہ عرب میں بسنے والے مسلمانوںکے درمیان معرکے سر ہونے لگے۔ بعد ازاں عربوںاور عجمیوں کے درمیان خانہ جنگیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جس نے مسلمانوں کی طاقت و قوت عز و شرف شان و شوکت اور رعب و داب کو ملیا میٹ کر دیا ۔
اس عبرت ناک داستان کا تفصیل کے ساتھ بیان آگے آئے گا۔ اس کی طرف اشارہ کر کے اپنے بیان کو ہم فی الحال صرف عہد صدیقؓ تک محدود کریں گے جو اگرچہ بے حد مختصر تھا لیکن اثر پذیری کے لحاظ سے بڑی بڑی سلطنتوں پر حاوی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ صدیوں کی جدوجہد کے بعد قائم ہونے والی سلطنتیں اڑھائی سال کی اس مختصر ترین حکومت کے مقابلے میں ہیچ تھیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔