Saturday 18 June 2016

بیعت حضرت علی کرم اللہ وجہہ


بیعت کے بعد ابوبکرؓ کھڑے ہوئے اورخطبہ دیا جو خلافت کا پہلا خطبہ تھا۔کچھ اصحاب بیعت سے انکار کرتے رہے لیکن آہستہ آہستہ یکے بعد دیگرے سب نے بیعت کر لی۔ سوائے حضرت علیؓ کے جنہیں اس مسئلے میں مشاورت میں شریک نا کیے جانے کی وجہ سے شکوہ تھا ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت علیؓ نے چالیس روز بعد بیعت کی تھی۔
اس واقعہ کو بھی سبائی راویوں نے متنازع بنانے کے لیے بیسوں روایات گھڑیں جو انہی کی پسند کا اختلاف دکھاتی ہیں اور اسکو ایک خاندانی جھگڑے کامسئلہ بناتے ہوئے انہوں نے اصحاب رسول ﷺ پر نفاق اور اہل بیت سے بغض کی تہمتیں لگائیں، ان روایات کی سندوں میں وہی نامی گرامی راوی بھی موجود ہیں جن کی جنگ صفین کے متعلق متنازعہ روایتوں پر ہم پہلے تحقیق پیش کرچکے ہیں، سند کے لحاظ سے وہ روایات کمزور ہیں ہی انکا متن بھی اصحاب رسول اور اہل بیت کی شان/ عادات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کے برعکس بعض ایسی روایتیں موجود ہیں جن میں اس امر سے صراحتاً انکار کیا گیا ہے کہ بنو ہاشم اور بعض مہاجرین بیعت سے علیحدہ رہے۔ ان روایتوں سے پتا چلتا ہے کہ سقیفہ کی خاص بیعت کے بعد عام بیعت کا وقت آیا تو مہاجرین اور انصار بالاجتماع آپ کی بیعت میں شریک تھے۔ چنانچہ طبری میں مذکورہے کہ کسی شخص نے سعید بن زید سے پوچھا:’’کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت مدینہ میں موجود نہ تھے:
انہوں نے جواب دیا:ہاں۔اس شخص نے پوچھا :حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کب کی گئی؟انہوں نے جواب دیا:اسی روز جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی۔ صحابہ کو یہ بات سخت ناپسند تھی کہ وہ ایک بھی روز بغیر خلیفہ کے زندگی گزاریں‘‘۔اس پر اس شخص نے پوچھا:’’کیا کسی شخص نے حضرت ابوبکرؓ کی مخالفت بھی کی ہے؟انہوں نے جواب دیا:’’نہیں سوائے مرتدین کے یا ان لوگوں کے جو حالت ارتداد کے قریب پہنچ چکے ہیں‘‘۔پوچھا گیا۔’’کیا مہاجرین میں سے بھی کسی نے بیعت کرنے سے انکار کیا ؟‘‘جواب دیا:نہیں مہاجرین نے تو اس بات کا انتظار بھی نہ کیا کہ کوئی شخص انہیں آ کر بیعت کے لیے بلائے بلکہ انہوں نے خود ہی آ کر ابوبکرؓ کی بیعت کر لی‘‘۔

بیعت علی کے متعلق درمیانی رائے
بعض روایات میں حضرت علیؓ کی بیعت کے بارے میں درمیانی رائے اختیار کی گئی ہے۔ ان روایات کا ملخص یہ ہے کہ بیعت کے بعد حضرت ابوبکرؓ منبرپرجلوہ افروز ہوئے۔ آ پ نے حاضرین پر نظر دوڑائی تو زبیر کو نہ پایا۔ آپ نے انہیں بلا بھیجا او رکہا:’’اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برادر عم زاد اورحواری کیا آپ مسلمانوں کی لاٹھی کو توڑنا چاہتے ہیں۔ (کیا بیعت نہ کر کے مسلمانوں کی قوت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں)‘‘
انہوں نے کہا:’’یا خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے سرزنش نہ کیجیے میں بیعت کرتا ہوں‘‘۔چنانچہ انہوں نے کھڑے ہوکربیعت کر لی۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے پھر ایک نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ بھی موجود نہں۔ آپ نے انہیں بھی بلایا اور کہا:’’اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برادر عم زاد اور آ کے محبوب داماد کیا آپ مسلمانوں کی لاٹھی کو توڑناچاہتے ہیں؟انہوں نے بھی جواب دیا:یا خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کی بیعت کرتاہوں۔‘‘اور یہ کہہ کر بیعت کر لی۔

بعض محققین کا خیال ہے کہ بیعت نہ کرنے کے متعلق روایات عباسی عہد میں بعض مخصوص سیاسی اغراض کی خاطر وضع کی گئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شیعہ حضرات حضرت علیؓ کی بیعت نہ کرنے کے ثبوت میں ایک واقعہ پیش کرتے ہیں۔ اس واقعے کے درست ہونے میں توکوئی شک نہیں لیکن اس کا بیعت کرنے یا نہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ ابوبکرؓ کی بیعت کے بعد حضرت فاطمہؓ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عباسؓ عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس آئے اور آپ کی اس میراث کا مطالبہ کیا ج ارض فدک اور خیبر کی جائیدادوں میں آپ کے حصے پر مشتمل تھی۔ ابوبکرؓ نے فرمایا:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے کہ:نحن معاشر الانبیاء لانورث ماترکنا صدقۃ
ہم انبیاء کا گروہ ہیں ۔ ہم کوئی میراث نہیں چھوڑتے اپنے پیچھے جو کچھ ہم چھوڑیں گے وہ صدقہ ہو گا۔ اس جائیداد کی آمدنی سے جس کا تم نے ذکر کیا ہے آپ کے اہل و عیال کا گزارہ چلتا تھا اس لیے میں بھی اسے وہیں خرچ کروں گا جہاں آپ خرچ کرتے تھے‘‘۔
اس پر حضرت فاطمہؓ ناراض ہو گئیں اور آخری وقت تک انہوںنے حضرت ابوبکرؓ سے کلا م نہ کیا ۔ میراث کے مطالبے پر حضرت فاطمہؓ کا حضرت ابوبکرؓ سے ناراض ہو جانا سمجھ میں نہیں آتا۔ جب ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے آگاہ کر دیاتھاا تو ان کے لیے دو ہی راستے تھے ۔ یا تو یہ کہوہ اس حدیث کی صحت سے انکار کر دیتیں یا آپ کے ارشاد پر سرتسلیم خم کر دیتیں۔ کسی روایت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ انہوں نے ابوبکر ؓ کی بیان کردہ حدیث کی صحت سے انکار کیا ہو۔ جب یہ بات نہیں تو فاطمہؓ جیسی پرہیز گار خاتون کس طرح آپ کے ارشاد سے منہ موڑ کر محض زمین کے چند قطعات کے لیے ابوبکرؓ سے ناراض ہو سکتی تھیں؟
یہ ہے وہ اصل روایت جس میں ابوبکرؓ سے حضرت فاطمہؓ کی ناراضی اور حضرت علیؓ کی ناراضی اور ان سے بول چال ترک کر دینے کا بیان ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ ٹکڑا بھی ملا دیا جاتا ہے کہ حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی وفات تک حضرت ابوبکرؓ کی بیعت نہ کی۔ وفات کے بعد ابوبکرؓ تعزیت کے لیے حضرت علیؓ کے پاس گئے اور علی ؓ ابوبکرؓ کو آتے دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے:’’اب ہمیں آپ کی بیعت کرنے میں کوئی روک نہیں لیکن ہمارے خیال میں خلافت ہمارا ہی حق ہے آپ نے اس پر قابض ہو کر ہمارا حق چھیناا ہے اور اس طرح ہم پر ظلم کیا ہے۔ ‘‘حضرت ابوبکرؓ نے اس کے جواب میں کہا:’’اس مال و جائیداد کے سلسلے میں جو میرے اور تمہارے درمیان وجہ نزاع بنی رہی میں نے جو کارروائی کی وہ محض تمہاری بھلائی کے لیے تھی‘‘۔
مذکورہ محققین یہ کہتے ہی کہ روایت کا آخری حصہ درایۃً ناقابل قبول ہے۔ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عباسؓ حضرت ابوبکرؓ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میراث کا مطالبہ اسی وقت کر سکتے تھے جب کہ مسلمان بالاتفاق بیعت کر کے حضرت ابوبکرؓ کو اپنا خلیفہ منتخب کر لیتے ۔ خلافت سے پہلے اس قسم کا مطالطہ کرنے کے کوئی معنی نہ تھے۔ اگر حضرت علی ؓ اور بنو ہاشم نے ان سے بیعت ہی نہ کی تھی اور انہیں خلیفہ تسلیم ہی نہ کیا تھا تو ان سے میراث کا مطالبہ کرنا بے معنی تھا۔
یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کا یہ دعوی ٰ ہے کہ حضرت علیؓ نے بلا توقف حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تھی اور ان میں سے اکثرکا خیال ہے کہ ان کی بیعت نہ کرنے کے متعلق جو روایات عباسیوں کے عہد میں بعض مخصوص سیاسی اغراض کے پیش نظر گھڑی گئیں ۔ کچھ محققین کہتے ہیں کہ یہ روایات عباسیوں سے بھی پہلے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کی جنگوں کے دوران میں بنی ہاشم اور بنی امیہ کی چشمک کے باعث وضع کی گیں۔عراق اور فارس کی فتح کے بعد وہاں ایرانی النسل لوگوں کا ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا تھا جس ے اپنے فائدے کی خاطر اس قسم کی روایات وضع کرنی شروع کیں۔ سلطنت اسلامیہ پر امویوں کے قبضے کی وجہ سے یہ لوگ کھلم کھلاا ان روایات کی تشہیر تو نہ کر سکتے تھے لیکن خفیہ طور پر ان کی اشاعت وسیع پیمانے پر کرتے تھے۔ اور ااس انتظار میں تھے کہ کب موقع ملے اور وہ کھلم کھلا اپنے عقائد کا اظہار کر سکیں ۔ ابو مسلم خراسانی کے خروج نے یہ ان کی دیرینہ تمنا پوری کر دی ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اور جس طرح ان روایات کا سہارا لے کر بنو عباس نے سلطنت حاصل کی وہ تاریخ کا ایک خونین باب ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔