Saturday 18 June 2016

سجاح اور مسیلمہ کی شادی


اس واقعے کے بعد اہل جزیرہ کی فوج کے سردار ایک جگہ جمع ہوئے اور انہوں نے سجاح سے کہا:
اب آپ ہمیں کیا حکم دیتی ہیں؟ مالک اور وکیع نے اپنی قوم سے صلح کر لی ہے۔ نہ وہ ہمیں مدد دینے کے لیے تیار ہیں اور نہ اس بات پر رضا مند کہ ہم ان کی سر زمین سے گزر سکیں۔ ان لوگوں سے بھی ہم نے یہ معاہدہ کیا ہے اور مدینہ جانے کے لیے ہماری راہ مسدود ہو گئی ہے۔ اب بتائیے ہم کیا کریں۔
سجاح نے جواب دیا:
اگر مدینہ جانے کی راہ مسدود ہو گئی ہے تو بھی فکر کی کوئی بات نہیں، تم یمامہ چلو۔
انہوں نے کہا:
اہل یمامہ شان و شوکت میں ہم سے بڑھے ہوئے ہیں اور مسیلمہ کی طاقت و قوت بہت زیادہ ہو چکی ہے۔
ایک روایت یہ بھی آتی ہے کہ جب اس کے لشکر کے سرداروں نے سجاح سے آئندہ اقدام کے متعلق دریافت کیا تو اس نے جواب دیا:
علیکم بالیمامہ، ود فواد فیف الحماہم، فانھا غزوۃ صرامہ، لا یلحقکم بعدھا ندامہ
(یمامہ چلو۔ کبوتر کی طرح تیزی سے ان پر جھپٹو۔ وہاں ایک زبردست جنگ پیش آئے گی جس کے بعد تمہیں پھر کبھی ندامت نہ اٹھانی پڑے گی۔)
یہ مسجع و مقفی عبارت سننے کے بعد، جسے اس کے لشکر والے وحی خیال کرتے تھے، انہیں اس کا حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس نے کس مقصد کے لیے یمامہ کا قصد کیا جب خود اسے اپنی قوم بنو تمیم میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس کے بعد مدینہ کی جانب کوچ کرتے ہوئے اوس بن خزیمہ کے ہاتھوں اسے شکست اٹھانی پڑی تھی۔ کیا اس کے لشکر میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جو ان ناکامیوں کو دیکھنے کے بعد اسے یمامہ نہ جانے کا مشورہ دیتا؟ یا یہ خیال کیا جائے کہ اس کی وفات پر ان لوگوں کو اس درجہ یقین تھا کہ وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اس کی باتوں کو وحٰ خیال کرتے اور نہایت فرماں برداری سے اس کی اطاعت اور اس کے احکام کی تعمیل میں کوئی دقیقہ سعی و فروگزاشت نہ کرتے تھے؟

سچ تو یہ ہے کہ سجاح کا سارا قصہ ہی عجائب و غرائب کا مجموعہ ہے۔ مورخین ذکر کرتے ہیں کہ جب وہ اپنے لشکر کے ہمراہ یمامہ پہنچی تو مسیلمہ کو بڑا فکر پیدا ہوا۔ اس نے سوچا اگر وہ سجاع کی فوجوں سے جنگ میں مشغول ہو گیا تو اس کی طاقت کمزور ہو جائے گی، اسلامی لشکر اس پر دھاوا بول دے گا اور ارد گرد کے قبائل بھی اس کی اطاعت کا دم بھرنے سے انکار کر دیں گے۔ یہ سوچ کر اس نے سجاح سے مصالحت کرنے کی ٹھانی۔ پہلے اسے تحفے تحائف بھیجے پھر کہلا بھیجا کہ وہ خود اس سے ملنا چاہتا ہے۔ سجاح اپنا لشکر لیے پانی کے ایک چشمے پر مقیم تھی، اس نے مسیلمہ کو باریابی کی اجازت دے دی۔ یہ مسیلمہ بنی حنیفہ کے چالیس آدمیوں کے ہمراہ اس کے پاس آیا۔ کیمپ میں پہنچ کر خلوت میں اس سے تملق آمیز گفتگو کی اور کہا کہ عرب کی آدھی زمین کے مالک قریش ہیں اور آدھی زمین کی مالک تم ہو۔ اس کے بعد مسیلمہ نے کچھ مسجع و مقفی عبارتیں سجاح کو سنائیں جن سے وہ بہت متاثر ہوئی۔ سجاح نے بھی جواب میں اسے اسی قسم کی بعض عبارتیں سنائیں یہ ملاقات خاصی دیر تک جاری رہی۔ مسیلمہ نے اپنی خوش کلامی اور چال بازی سے سجاح کا دل موہ لیا اور سجاح کو اقرار کرتے ہی بن پڑی کہ مسیلمہ اس سے ہر طرح فائق ہے۔
سجاح کو پوری طرح اپنے قبضے میں لینے اور ہم نوا بنانے کے لیے مسیلمہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم دونوں اپنی نبوتوں کو یکجا کر لیں اور باہم رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جائیں۔ سجاح نے جو پہلے ہی اس کی خوش کلامی اور محبت آمیز باتوں سے مسحور ہو چکی تھی، نہایت خوشی سے یہ مشورہ قبول کر لیا اور مسیلمہ کے ساتھ اس کے کیمپ میں چلی گئی۔ تین روز تک وہاں رہی، اس کے بعد اپنے لشکر میں واپس آئی اور ساتھیوں سے ذکر کیا کہ اس نے مسیلمہ کو حق پر پایا ہے اس لیے اس سے شادی کر لی ہے۔
سجاح کا مہر
لوگوں نے اس سے پوچھا آپ نے کچھ مہر بھی مقرر کیا؟ اس نے کہا مہر تو مقرر نہیں کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا۔ آپ واپس جائیے اور مہر مقرر کر آئیے کیونکہ آپ جیسی شخصیت کے لیے مہر لیے بغیر شادی کرنا زیبا نہیں۔ چنانچہ وہ مسیلمہ کے پاس واپس گئی اور اسے اپنی آمد کے مقصد سے آگاہ کیا۔ مسیلمہ نے اس کی خاطر عشاء اور فجر کی نمازوں میں تخفیف کر دی۔ مہر کے بارے میں یہ تصفیہ ہوا کہ مسیلمہ یمامہ کی زمینوں کے لگان کی نصف آمدنی سجاح کو بھیجا کرے گا۔ سجاح نے یہ مطالبہ کیا کہ وہ آئندہ سال کی نصف آمدنی میں سے اس کا حصہ پہلے ہی ادا کر دے ۔ اس پر مسیلمہ نے نصف سال کی آمدنی کا اسے دے دیا جسے لے کر وہ جزیرہ واپس چلی گئی۔ بقیہ نصف سال کی آمدنی کے حصول کے لیے اس نے اپنے کچھ آدمیوں کو بنو حنفیہ ہی میں چھوڑ دیا۔ وہ ابھی وہیں مقیم تھے کہ اسلامی لشکر آ پہنچا اور مسیلمہ سے جنگ کر کے اس کاکام تمام کر دیا۔ سجاح بد ستور بنو تغلب میں مقیم رہی یہاں تک کہ امیر معاویہ نے قحط والے سال (عام المجاعہ) اسے اس کی وم کے ساتھ بنو تمیم میں بھیج دیا جہاں وہ وفات تک مسلمان ہونے کی حالت میں مقیم رہی۔
یہ ہے سجاح کا قصہ ہے اور۔۔۔ جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔۔۔۔ بہت ہی عجیب قصہ ہے۔ وہ جزیرہ سے ابوبکرؓ کے مقابلے کو روانہ ہوتی ہے لیکن مالک بن نویرہ سے بات چیت کے بعد اس کی رائے بدل جاتی ہے اور وہ مدینہ پر ہلہ بولنے کے بجائے یمامہ کا رخ کرتی ہے۔ وہاں مسیلمہ سے اس کی ملاقات ہوتی ہے اور ان دونوں کی شادی ہو جاتی ہے۔ شادی کے فوراً بعد وہ اپنے قبیلے میں لوٹ آتی ہے اور بقیہ ساری عمر اس طرح بسر کرتی ہے جیسے کبھی وہ اپنے قبیلے سے باہر نکلی ہی نہ تھی اور اپنے پہلے خاوند کے سوا کسی سے شادی کی ہی نہ تھی۔
مسیلمہ کا معاملہ بھی سجاح کے معاملے سے کم تر نہیں۔ اگر سجاح سے اس کی شادی کا قصہ درست ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسیلمہ اول درجے کا سیاست دان اور لوگوں کے دلی جذبات بھانپ لینے والا شخص تھا۔ اس نے چاہا کہ وہ اس طرح سجاح سے چھٹکارا حاصل کرے تاکہ ابوبکرؓ کی بھیجی ہوئی افواج کا مقابلہ دل جمعی سے کیا جا سکے۔ اس نے سجاح کو میٹھی میٹھی اور چکنی چپڑی باتوں سے رام کر لیا اور چال بازی سے کام لے کر اسے اس کے قبیلے میں واپس بھیج دیا۔ مالک بن نویرہ اور مسیلمہ کے ساتھ سجاح کے تعلقات جس قسم کے رہے ان پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ سجاح ایک ہوشیار کاہنہ، مسجع مقفی عبارتیں بنانے میں ماہر، بہت نرم طبیعت اور نسوانی خصوصیات کی پوری طرح حامل تھی۔ ادھر مسیلمہ بھی ایک ہوشیار سیاست دان تھا۔ وہ خوبصورت نہ تھا لیکن میٹھی میٹھی باتوں سے لوگوں کے دل موہ لیتا تھا۔ عورتوں سے اسے بہت کم رغبت تھی اور عورت کا حسن و جمال اس پر مطلق اثر نہ کرتا تھا۔ اسی وجہ سے اس نے اپنی شریعت میں یہ بات رکھ دی تھی کہ جس شخص کے بیٹا پیدا ہو اس کے لیے اس وقت تک اپنی بیوی کے پاس جانا ناجائز ہے جب تک وہ بیٹا زندہ ہے۔ اگر بیٹا مر جائے تو دوسرے بیٹے کے حصول کے لیے بیوی کے پاس جا سکتا ہے لیکن جس کا بیٹا موجود ہو اس کے لیے عورتیں حرام ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔