Saturday 18 June 2016

مسیلمہ کذاب کا قتل


خالدؓ نے جب مسلمانوں کی جوش دلانے والی آوازیں سنیں تو انہیں بھی یقین ہو گیا کہ بنی حنفیہ کی سخت مدافعت کے باوجو انجام کار فتح انہیں کے حصے میں آئے گی۔ لیکن وہ چاہتے تھے کہ فتح کا حصول حتیٰ الامکان جلد ہو جائے اس لیے بہت غور سے ایک بار میدان کا جائزہ لیا۔ انہوں نے دیکھا کہ بنو حنفیہ مسیلمہ کے گرد کٹ کٹ کر گر رہے ہیں اور مسیلمہ کی حفاظت میں موت کی بھی پروا نہیں کرتے۔ یہ دیکھ کر انہیں یقین ہو گیا کہ فتح کے جلد از جلد حصول کا طریق یہ ہے کہ کسی طرح مسیلمہ کو قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ وہ اپنے آدمی لے کر آگے بڑھے اور مسیلمہ کے آدمیوں کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ اس کے بعد کوشش کی کہ کسی طرح مسیلمہ ان کے سامنے آ جائے تاکہ اس کا کام تمام کیا جا سکے۔ لیکن قبل اس کے کہ مسیلمہ ان کے سامنے آتا، اس کے آدمیوں نے بڑھ چڑھ کر خالدؓ پر حملے کرنے شروع کیے۔ خالدؓ تو ان کے بس میں کیا آتے البتہ جو شخص ان کے مقابلے میں آتا زندہ واپس نہ جاتا۔ اس طرح بے شمار آدمی قتل ہو گئے۔
مسیلمہ کا تردد و اضطراب:
جب مسیلمہ نے دیکھا کہ اس کے حامیوں کی تعداد بہ سرعت کم ہوتی جا رہی ہے تو اس نے کود خالدؓ کے مقابلے پر آنے کا ارادہ کیا لیکن اس خیال سے رک گیا کہ اگر وہ بھی خالدؓ کے مقابلے کے لیے نکلا تو لا محالہ مارا جائے گا۔ اب اس کے تردد و اضطراب کی انتہا نہ رہی۔ اس کے جاں نثار کٹ کٹ کر گر رہے تھے اور اسے خود بھی اپنی موت سامنے نظر آ رہی تھی۔ وہ اس اضطراب کی حالت میں کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ یکایک خالدؓ نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے اس کے محافظین پر ایک بھرپور حملہ کر کے تلوار کے جوہر دکھانے شروع کیے۔
یہ دیکھ کر مسیلمہ کے ساتھیوں نے اس سے پکار کر پوچھا:
آپ کے وہ وعدے، جو اپنی فتح کے متعلق آپ نے ہم سے کیے تھے، کہاں گئے؟
اس وقت مسیلمہ کے حوصلے ختم ہو چکے اور اس نے میدان جنگ سے بھاگنے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا۔ چنانچہ اس نے پیٹھ پھیرتے ہوئے جواب دیا:
اپنے حسب و نسب کی خاطر لڑتے رہو۔
لیکن ا ب وہ کیا لڑتے جب ان کا سردار انہیں مسلمانوں کی تلواروں کے سپرد کر کے انتہائی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے راہ فرار اختیار کر چکا تھا۔
بنی حنفیہ کے ایک سردار محکم بن طفیل نے جب لوگوں کو بھاگتے اور مسلمانوں کو ان کا پیچھا کرتے دیکھا تو پکار پکار کر کہنے لگا:
اے بنو حنفیہ! باغ میں داخل ہو جاؤ۔
یہ باغ جسے حدیقۃ الرحمن کہا جاتا تھا میدان جنگ سے قریب ہی تھا اور مسیلمہ کی ملکیت میں تھا۔ یہ بہت طویل و عریض تھا اور قلعے کی طرح اس کے چاروں بلند دیواریں کھڑی تھیں۔ محکم بن طفیل کی آواز سن کر لوگوں نے اس باغ کی طرف بھاگنا شروع کیا (جس میں مسیلمہ پہلے ہی داخل ہو چکا تھا) لیکن محکم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ مسلمانوں کو بنی حنفیہ کے تعاقب سے روکنے کے لیے میدان جنگ ہی میں رہ گیا تھا۔ اس نے بہت بہادری سے مسلمانوں کا مقابلہ کیا اور آخر عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کے ایک تیر سے جو اس کے سینے میں لگا اس کا کام تمام ہو گیا۔
مسیلمہ اور اس کی قوم باغ میں پناہ گزین ہو چکی تھی۔ مسلمانوں کے لیے باغ کا محاصرہ کر لینے اور کامل فتح کے حصول تک وہاں سے نہ ٹلنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ چنانچہ نے ایسا ہی کیا۔ باغ کے چاروں طرف مسلمانوں نے پڑاؤ ڈال دیا اور کسی ایسی کمزور جگہ کی تلاش کرنے لگے جہاں سے باغ میں گھس کر اس کا دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو سکیں۔ لیکن انتہائی تلاش کے باوجود انہیں ایسی کوئی جگہ نہ ملی۔
آخر براء بن مالک نے کہا :
’’ مسلمانو! اب صرف یہ راستہ ہے کہ تم مجھے اٹھا کر باغ میں پھینک دو۔ میں اندر جا کر دروازہ کھول دوں گا۔‘‘
لیکن مسلمان یہ کس طرح گوارا کر سکتے تھے کہ ان کا ایک بلند مرتبت ساتھی ہزاروں دشمنوں میں گھر کر اپنی جان گنوا دے۔ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا لیکن براء نے اصرار کرنا شروع کیا اور کہا:
’’ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم مجھے باغ کے اندر پھینک دو۔‘‘
آخر مجبور ہو کر مسلمانوں نے انہیں باغ کی دیوار پر چڑھا دیا۔ دیوار پر چڑھ کر جب براء نے دشمن کی زبردست جمعیت کی جانب نظر دوڑائی تو ایک لمحے کے لیے ٹھٹکے لیکن پھر اللہ کا نام لے کر باغ کے دروازے کے سامنے کود پڑے اور دشمنوں سے دو دو ہاتھ کرتے، دائیں بائیں لوگوں کو قتل کرتے دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔ آخر بیسیوں آدمیوں کے قتل کے بعد وہ دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور آگے بڑھ کر بڑی پھرتی سے اسے کھول دیا۔
مسلمان، باہر دروازہ کھلنے کے منتظر تھے ہی۔ جونہی دروازہ کھلا وہ باغ میں داخل ہو گئے اور تلواریں سونت کر دشمنوں کو بے دریغ قتل کرنے لگے۔ بنو حنفیہ مسلمانوں کے سامنے سے بھاگنے لگے لیکن باغ سے باہر وہ کس طرح نکل سکتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ صرف براء نے نہیں بلکہ اور بھی کئی مسلمانوں نے دیواریں پھاند کر دروازے کا رخ کیا تھا۔ چونکہ براء نے دروازے کے بالکل قریب دیوار پھاندی تھی۔ اس لیے دروازے پر سب سے پہلے وہی پہنچے اور لڑتے بھڑتے دروازہ کھول دیا۔ بنو حنفیہ نے ان مٹھی بھر مسلمانوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن دیوار پر جو مسلمان متعین تھے انہوں نے تیار مار مار کر انہیں مسلمانوں سے دور رکھا۔

مسلمانوں نے اگرچہ باغ میں گھس کر بنو حنفیہ کو بے دریغ قتل کرنا شروع کر دیا تھا۔ مگر بنو حنفیہ نے بھی بڑی بہادری سے ان کا مقابلہ کیا۔ لیکن مسلمانوں کے سامنے ان کی پیش نہ گئی طرفین کے کثیر آدمی اس معرکے میں قتل ہوئے لیکن بنی حنفیہ کے مقتولوں کی تعداد مسلمانوں سے بیسیوں گنا تھی۔ حبشی غلام وحشی، جس نے جنگ احد میں حمزہ بن عبدالمطلبؓ کو شہید کیا تھا اور جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہو گیا تھا، اس موقع پر موجود تھا۔ اس نے مسیلمہ کو باغ میں دیکھا اور اپنا چھوٹا سا نیزہ ترک کر مسیلمہ کے مارا جو سیدھا اسے جا کر لگا۔ اسی وقت ایک انصاری نے بھی مسیلمہ پر تلوارکا وار کیا۔ وحشی کہا کرتا تھا ’’ اللہ ہی جانتا ہے کہ ہم میں سے کس نے اسے قتل کیا۔ لیکن مسیلمہ اگر مرنے کے بعد زندہ ہوتا تو ہمیشہ ہی یہ کہتا کہ اسے اس سیاہ فام غلام نے قتل کیا ہے۔‘‘
جب بنو حنفیہ نے مسیلمہ کی خبر موت سنی تو ان کے حوصلے پست ہو گئے۔ مسلمانوں نے انہیں بے تحاشا قتل کرنا شروع کیا۔ عرب میں اس وقت تک جتنی جنگیں ہوئی تھیں یمامہ سے بڑھ کر کسی بھی جنگ میں اتنی خونریزی نہ ہوئی تھی۔ اس لیے حدیقتہ الرحمن کا نام حدیقتہ الموت پڑ گیا اور آج تک تاریخ کی کتابوں میں یہی نام چلا آتا ہے۔

بنی حنفیہ کے مقتولین کی تعداد:
روایات سے پتا چلتا ہے کہ حدیقتہ الموت کی لڑائی میں سات ہزار بنی حنفیہ قتل ہوئے تھے۔ میدان جنگ میں بھی ان کے مقتولین کی تعداد سات ہزار تھی۔ اس کے بعد جب خالدؓ نے اپنے دستوں کو مفرورین کے تعاقب میں روانہ کیا تو بھی سات ہزار آدمی قتل ہوئے۔
مسلمان شہداء کی تعداد:
اس جنگ میں جہاں بنی حنفیہ کے مقتولین کی تعداد پچھلی تمام جنگوں سے زیادہ تھی وہاں مسلمان شہداء کی تعداد بھی پچھلی تمام جنگوں کو مات کر گئی تھی۔ اس جنگ میں مسلمان شہداء کی تعداد بارہ سو تھی۔ تین سو ستر مہاجرین، تین سو انصار اور باقی دیگر قبائل کے لوگ، ان شہداء میں تین سو ستر صحابہ کبار اور قرآن کے حافظ بھی تھے جن کا مقام اور درجہ مسلمانوں میں بے حد بلند تھا۔ اگرچہ ان حافظوں کی شہادت سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا لیکن بعض اوقات ایک نقصان دہ چیز بھی آخر فائدے کا موجب بن جاتی ہے چنانچہ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ابوبکرؓ نے اس ڈر سے کہ کہیں آئندہ جنگوں میں بقیہ حافظوں سے بھی مسلمانوں کو ہاتھ نہ دھونے پڑیں، قرآن جمع کرنے کا حکم دے دیا اور اس طرح پہلی مرتبہ قرآن کریم ایک جلد میں مدون کیا گیا۔
مسلمانوں کا حزن و الم:
مسلمانوں کی بھاری تعداد کے شہید ہو جانے سے ان کے رشتہ داروں کو جس صدمے سے دو چار ہونا پڑتا تھا اس کی تلافی صرف یہ چیز کر سکتی تھی کہ گو مسلمانوں کو کئی قیمتی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا پھر بھی فتح کا شرف انہیں کے حصے میں آیا۔ عمرؓ بن خطاب کے صاحبزادے عبداللہ جنگ یمامہ میں بہادری کے عظیم کارنامے انجام دینے کے بعد مدینہ واپس آئے تو ان کے والد نے کہا:
’’ جب تمہارے چچا زید شہید ہو گئے تھے تو تم واپس کیوں آ گئے اور کیوں نہ اپنا چہرہ مجھ سے چھپا لیا؟‘‘
صرف عمرؓ ہی کا یہ حال نہ تھا بلکہ مکہ اور مدینہ کے سینکڑوں گھرانے اپنے بہادروں اور سپوتوں کی شہادت پر خون کے آنسو بہا رہے تھے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔