Saturday 18 June 2016

عرب کی بغاوتوں کا اختتام


غرض ۱۱ھ کے ختم ۱۲ ھ کے شروع ہونے سے پہلے پہلے یعنی ایک سال سے کم مدت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملک عرب کے فتنہ ارتداد پر پورے طور پر غالب آگئے ،محرم ۱۱ ھ میں جزیرۃ العرب مشرکین ومرتدین سے بالکل پاک وصاف ہوچکا تھا اوربراعظم عرب کے کسی گوشہ اورکسی حصہ پر شرک وارتداد کی کوئی سیاہی باقی نہ تھی،ایک طرف چند مہینے پہلے کی اس حالت پر غور کرو کہ مدینہ ومکہ وطائف کے سوا تمام ملک کا مطلع غبار آلود تھا اوراُس غبار سے شمشیر ونیزہ وسنان اورکمند وکمان کے طوفان ابلتے ہوئے اورامنڈتے ہوئے نظر آتے تھے، پھر یہ کیفیت تھی کہ پتھر کے موم کی طرف پگھلنے اور فولاد کی رگیں کچے دھاگے کی طرح گیسختہ ہونے سے باز نہیں رہ سکتی تھیں،پہاڑوں سے زیادہ ہمتیں دریاؤں کے پانی کی طرح بہ سکتی تھیں اور آسمان کی طرح بلند ووسیع حوصلے تنگ وپست ہوکر تحت الثریٰ کی گم نامیوں میں شامل ہوسکتے تھے؛ لیکن دستان محمدی کے تربیت یافتہ صدیق اکبرؓ کی ہمت وحوصلہ کا اندازہ کرو کہ تنہا اس تمام طوفان کے مقابلہ کو جس شوکت وشجاعت کے ساتھ میدان میں نکلا ہے ہم اس کی مثال میں نہ شیر ونہنگ کا نام لے سکتے ہیں نہ رستم واسفند یار کا نام زبان پر لاسکتے ہیں، شیر نیستاں اور رستم دستاں کے دلوں کو اگر صدیق اکبرؓ کے دل کی طاقت کے سو حصوں میں سے ایک حصہ بھی ملا ہوتا تو ہم کو کسی مثال تشبیہ کے تلاش و تجسس میں سرگردانی کی ضرورت نہ تھی،لیکن اب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتے کہ خیر البشر کے شاگرد رشید خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفۂ اول نے ٹھیک اپنے مرتبہ کے موافق ہمت واستقلال اور قوت قدسی کا اظہار کیا اورجس کام کو اسکندر یونانی جو لیس سیزر رومی کیسروایرانی مل کر بھی پورا کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے،صدیق اکبرؓ نے چند مہینے میں اس کو بہ حُسن وخوبی پورا کرکے دکھایا۔
اس میں شک نہیں کہ لشکرِ صدیق میں خالدؓ ،عکرمہؓ، شرجیلؓ، حذیفہؓ،وغیرہ جیسے بے نظیر مردانِ صف شکن موجود تھے،لیکن صدیق اکبرؓ مدینہ منورہ میں بیٹھے ہوئے ملک کے ہر حصے اورہر گوشے کی حالت سے باخبر تھے اورکس طرح فوجی دستوں کے پاس ان کے احکام متواتر پہنچ رہے تھے، غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر دستہ فوج اورہر سالار لشکر ملک عرب کی بساط پر شطرنج کے ایک مہرہ کی طرح تھا اورصدیق اکبرؓ کی انگشتِ تدبیر جس مُہرہ کو جس جگہ مناسب ہوتا تھا اٹھا کر رکھ دیتی تھی ، بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان گیارہ اسلامی لشکروں نے ہر طرف روانہ ہوکر ملکِ عرب سے فتنہ ارتداد کو مٹا دیا؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلیفۃ الرسول نے مدینہ میں بیٹھ کر شام ونجد سے مسقط وحضر موت تک اور خلیج فارس سے یمن وعدن تک تمام براعظم کو تنہا اپنی تدبیر ورائے سے چند مہینے کے اندر ہر ایک خس وخاشاک سے پاک وصاف کردیا اس فتنہ کی ہمت شکن ابتداء میں کوئی متنفس صدیق اکبرؓ کے سوا ایسا نہ تھا جو اس کی انتہا کو دیکھ سکتا اور صرف صدیق اکبرؓ ہی کو وہ اندیشہ سوز ایماں حاصل تھا کہ انہوں نے نہ لشکر اسامہؓ کی روانگی کو ملتوی کرنا مناسب سمجھا نہ مسجد نبوی میں فاروق اعظم ؓ کے ہاتھ پاؤں پُھلادینے والی باتوں سے مرعوب ومتاثر ہوئے،نہ منکرین زکوٰۃ کے مطالبات کو پرکاہ کے برابر وقعت دی،اب تم غور کرو اورسوچو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی سلطنت کا شہنشاہ صدیق اکبرؓ کے سوا اورکون ہوسکتا تھا؟

اب عرب کی تمام بغاوتیں فرو ہو چکی تھیں۔ مرتدین کا قلع قمع ہو چکا تھا اللہ نے اپنے دین کو عزت دے کر اسے غلبہ عطا فرما دیا تھا اور اسلامی حکومت کی بنیادیں اقصائے عرب میں مضبوطی سے قائم ہو چکی تھیں۔ ابوبکرؓ کو اسلام کے غلبے سے بے حد مسرت تھی لیکن ا س مسرت میں غرور و فخروتکبر کا شائبہ تک نہ تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ جو کچھ ہوا محض اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی سیہوا۔ ان کی یہ طاقت نہ تھی کہ وہ گنے چنے مسلمانوں کے ذریعے سے سارے عرب کے مرتدین کی جرار فوجوں کا مقابلہ کر سکتے اورانہیں شکست دے کر اسلام کا علم نہایت شان سے دوبارہ بلند کرسکتے۔
آئندہ اقدام
اب ابوبکرؓ کے سامنے یہ مسئلہ تھاا کہ دین کی وحدت کو تقویت دینے اور اسلام کو عروج تک پہنچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں ۔ ابوبکر ؓ کی سیاست کا محور صرف اعلاء کلمۃ الحق تھا۔ یہی خواہش تھی کہ جو ہر آن ان کے دماغ میںگردش کرتی رہتی تھی۔ اسی جذبے کے تحت انہوںنے انتہائی بے سروسامانی ے باوجود مرتدین کے عظیم الشان لشکروں سے جنگیں لڑیں اوریہی جذبہ تھا کہ جو عراق و شام کی لڑائیوں میں کارفرما رہا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔