Saturday 18 June 2016

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور مسیلمہ میں جنگ


مسیلمہ نے اپنا لشکر یمامہ کی ایک جانب عقرباء میں جمع کیا تھا اور سارا مال اسباب لشکر کے پیچھے رکھا تھا۔ اس کا لشکر بعض روایات کے مطابق چالیس ہزار اور بعض دوسری روایتوں کے رو سے ستر ہزار تھا۔ ایسے عظیم الشان لشکر کا ذکر عربوں نے اس سے پہلے بہت ہی کم سنا تھا۔
خالدؓ اسی روز، مسیلمہ کی فوج کے مقابلے میں آ گئے۔ دونوں لشکر میدان جنگ میں کھڑے آخری اعلان کے منتظر تھے۔ ہر ایک کویقین تھا کہ فتح مندی و کامرانی اسی کے حصے میں آئے گی اور وہ دوسرے لشکر کو تباہ و برباد کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنگ یمامہ کا دن اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسلام میں ایک منفرد دن ہے کیونکہ اس روز اسلام اور نبوت کا ذبہ کا آخری مقابلہ ہونے والا تھا۔
مسیلمہ کی طرف یمن ، عمان، مہرہ، بحرین، حضرت موت اور عرب کی جنوبی جانب، مکہ اور طائف سے خلیج عدن تک کے تمام علاقوں کے لوگوں کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ ایرانی بھی بڑی بے صبری سے اس جنگ کے نتیجے کے منتظر تھے۔ مسیلمہ کا لشکر اس پر کامل ایمان رکھتا تھا اور اس کی راہ میں کٹ مرنے کے لیے تیار تھا۔ علاوہ بریں حجاز اور عرب کے جنوبی علاقوں کی دیرینہ دشمنی بھی مسلمانوں کے خلاف اپنی ہیئت کے لحاظ سے کچھ کم طاقت ور نہ تھی۔ اس کے سپہ سالار خالد بن ولیدؓ تھے جو بلا شبہ اپنے زمانے کے سالار اعظم تھے۔ لشکر میں کلام اللہ کے حافظوں اور قاریوں کی بھی کمی نہ تھی۔ یہ تمام لوگ اس جذبے سے میدان جنگ میں آئے تھے کہ اللہ کے راستے میں جہاد اور اس کے دین کی مدافعت مومن کا فرض اولین ہے اور علم و بصیرت رکھنے والے کے لیے تو یہ فرض عین ہے۔ اس جذبے ان کے ولولوں اور امنگوں کو بہت بڑھا دیا تھا اور وہ تعداد میں مرتدین سے بہت کم ہونے کے باوجود عزم و ہمت میں ان سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھے۔
آغاز جنگ میں مسلمان بنی حنفیہ کے مقابلے میں ثابت قدم نہ رہ سکے اور پیچھے ہٹنے لگے۔ مسلمانوں نے پیچھے ہٹنے کے باوجود پہلے ہی ہلے میں بنی حنفیہ کے سینکڑوں آدمیوں کو قتل کر ڈالا تھا۔ ان قتل ہونے والوں میں سب سے پہلا شخص نہار الرجال تھا۔ جو بنی حنفیہ کے مقدمہ پر مقرر تھا۔ اسے حضرت عمرؓ کے بھائی زیدؓ بن خطاب نے قتل کیا تھا۔ اس کے قتل سے فتنہ مسیلمہ کے سب سے بڑے سرغنے کا خاتمہ ہو گیا۔
خالدؓ کی حکمت عملی:
لشکر اسلام کے پیچھے ہٹنے کے باوجود خالدؓ کے عزم و ثبات میں مطلق کمی نہ آئی اور انہیں ایک لمحے کے لیے بھی اپنی شکست کاخیال پیدا نہ ہوا۔ انہوں نے یہ بات بھانپ لی تھی کہ لشکر کے پیچھے ہٹنے کا سبب فخر و مباہات کا وہ جذبہ تھا جو مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں پیدا ہو گیا تھا اور جس کے باعث ان میں کمزوری راہ پا گئی تھی۔ یہ خیال آتے ہی انہوں نے پکار کر اپنے لشکر سے کہا:اے لوگو! علیحدہ علیحدہ ہو جاؤ اور اسی حالت میں دشمن سے لڑو تاکہ ہم دیکھ سکیں، کس قبیلے نے لڑائی میں بہادری کا سب سے اچھا مظاہرہ کیا۔
مجاہدین اسلام کا عزم و ثباتـ:
خالدؓ کے اس حکم کا خاطر خواہ اثر ہوا اور ہر قبیلے نے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر ثابت کرنے کے لیے پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے دشمن کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا۔ آخر مسلمانوں کو بھی یہ احساس ہو گیا ہے انہوں نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے فخر و مباہات اور تعلی کا جو مظاہرہ کیا تھا وہ نامناسب تھا۔ چنانچہ انصار کے ایک سردار ثابت بن قیس نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
اے مسلمانو! تم نے بہت بری مثال قائم کی ہے۔
پھر اہل یمامہ کی طرف اشارہ کر کے کہا:
اے اللہ! جس کی یہ عبادت کرتے ہیں میں اس سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔
اور جو کچھ انہوں نے کیا ہے میں اس سے بھی بیزاری کا اظہار کرتا ہو۔
اس کے بعد وہ تلوار سونت کر دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور بڑی بہادری سے لڑنے لگے۔ وہ لڑتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے:
میری تلوار کا مزہ چکھو، میں تمہیں صبر و استقلال کا حقیقی نمونہ دکھاؤں گا۔
وہ اسی طرح بے جگری سے لڑتے رہے۔ ان کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں زخم نہ لگے ہوں۔ آخر اسی طرح لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔
براء بن مالک ان صنادید عرب میں سے تھے جو پیٹھ دکھانا جانتے ہی نہ تھے۔ جب انہوں نے مسلمانوں کو بھاگتے دیکھا تو وہ تیزی سے کود کر ان کے سامنے آ گئے اور کہا:
اے مسلمانو! میں براء بن مالک ہوں۔ میری پیروی کرو۔
مسلمان ان کی بہادری اور شجاعت سے خوب واقف تھے ان کی ایک جماعت براء کے ساتھ ہو لی۔ وہ اسے لے کر دشمن کے مقابلے میں آ گئے اور اس بہادری سے لڑے کہ دشمن کو پیچھے ہٹتے ہی بن پڑی۔
عین لڑائی کے دوران میں یہ اتفاق ہوا کہ سخت آندھی آ گئی اور ریت اڑ اڑ کر مسلمانوں کے چہروں پر پڑنے لگی۔ چند لوگوں نے اس پریشانی کا ذکر زیدؓ بن خطاب سے کیا اور پوچھا کہ اب کیا کریں۔ انہوں نے جواب میں کہا:
واللہ! میں آج کے دن اس وقت تک کسی سے بات نہ کروں گا جب تک دشمن کو شکست نہ دے لوں یا اللہ مجھے شہادت عطا نہ فرمائے اے لوگو! آندھی سے بچاؤ کی خاطر اپنی نظریں نیچی کر لو اور ثابت قدم رہ کر لڑو۔
یہ کہہ کر تلوار سونت لی اور دشمن کی صفوں میں گھس کر بے جگری سے لڑنے لگے۔ ان کا دستہ بھی ان کے پیچھے ثابت قدمی سے لڑ رہا تھا آخر ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ پورے ہو گئے اور انہوں نے اسی طرح لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کیا۔
ابو حذیفہ پکار پکار کر کہہ رہے تھے:
اے اہل قرآن! اپنے افعال کے ذریعے سے قرآن کو عزت بخشو پھر خود بھی دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت کے بعد جھنڈا ان کے غلام سالم نے اٹھایا اور کہا:
اگر آج ثابت قدم نہ رہوں تو میں بدترین حامل قرآن ہوں گا۔
چنانچہ وہ بھی لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔
ان آوازوں نے جو ایمان و یقین سے بھرپور قلوب سے نکل رہی تھیں مسلمانوں کے لشکر میں بہادری کی ایک نئی روح پھونک دی۔ زندگی ان کی نظروں میں حقیر بن کر رہ گئی اور شہادت کی تمنا ہر دل میں چٹکیاں لینے لگی چنانچہ وہ بے جگری سے لڑے اور تھوڑی دیر میں مسیلمہ کے لشکر کو اس کی پہلی جگہ پر لا کھڑا کیا۔
جہاں مسلمان دین حق کی حفاظت اور حصول جنت کی خاطر لڑ رہے تھے وہاں مسیلمہ کا لشکر اپنے وطن، حسب و نسب اور ایسے کمزور عقیدے کی خاطر لڑ رہا تھا جو ان کے نزدیک وطن اور حسب و نسب سے بھی بہت کم درجے کا تھا۔ اسی لیے مسلمانوں نے بنو حنفیہ سے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور انتہائی بے جگری سے لڑے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔