Saturday 18 June 2016

وفات صلی اللہ علیہ وسلم پر مسلمانوں کی سراسیمگی


۱۲ ربیع الاول ۱۱ھ مطابق ۳ جون ۶۳۲ء کو اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جوار رحمت میں بلا لیا۔ اس دن صبح کے وقت آپ ؐ نے مرض میں کچھ افاقہ محسوس کیا جس پر آپ ؐ حضرت عائشہ ؓ کے حجرے سے نکل کر مسجد میں تشریف لائے اور لوگوں سے کچھ باتیں کیں اسامہ بن زید امیر لشکر کی کامیابی کی دعا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے لشکر کے ہمراہ مملکت روم کی جانب روانہ ہو جائیں۔ اس کے بعد آپ ؐ واپس حجرے میں تشریف لے آئے۔ کچھ ہی دیر بعدجب لوگوں کو اچانک معلو م ہوا کہ ا ن کا محبوب آقا ان سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا ہے تو ان کی حالت مارے غم کے دیوانوں کی سی ہو گئی۔ حضرت عمرؓ تلوار لے کر مسجد میں کھڑے ہو گئے اور کہنا شروع کیا:
’’جو شخص کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو گئے ہیں میں اس تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔ آپؐ ہرگز فوت نہیں ہوئے بلکہ اپنے رب کے حضور تشریف لے گئے ہیں۔ اسی طرح جیسے موسیٰؑ تشریف لے گئے تھے اور چالیس رات غیر حاضر رہنے کے بعد واپس اپنی قوم میں آ گئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یقینا واپس آئیں گے اور منافقین کے ہاتھ پائوں کاٹیں گے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت عائشہؓ کے حجرے میں واپس پہنچانے کے بعد ابوبکرؓ آپؐ کی صحت کے بارے میں مطمئن ہو کر مدینہ کے نواح میں اپنے گھر تشریف لے گئے تھے جو مقام سخ میں تھا۔ جب آپؐ کی وفات کی خبر پھیلی تو اایک شخص نے ابوبکرؓ سے جا کر خبر کی۔ وہ فوراً مدینہ آئے۔ مسجد نبوی میں حضرت عمرؓ تلوار ہاتھ میں لیے لوگوں کو دھمکا رہے تھے مگر انہوں نے اس طرف التفات نہ فرمایا بلکہ سیدھے حضرت عائشہؓ کے حجرے میں چلے گئے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسد اطہر رکھا ہوا تھا۔ ابوبکرؓ نے رخ مبارک سے کپڑا ہٹایا اوررخسار کوبوسہ دے کر فرمایا کیا ہی بابرکت تھی آپؐ کی زندگی اور کیا ہی پاکیزہ ہے آپ کی موت اس کے بعد حجرے سے باہر نکلے اور منبر پر چڑھ کر فرمایا:
ایھا الناس من کان یعبد حمد آفان محمد اقدامات ومن کان یعبد اللہ فان اللہ حی لا یموت
(اے لوگو! جو شخص محمدؐ کو پوجتا تھا اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمدؐ فوت ہو گئے ہیں لیکن جو شخص اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ یقینا زندہ ہے اور اس پر کبھی موت وارد نہ ہو گی)۔
اس کے بعد یہ آیت پڑھی:
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیئا و سیجزی اللہ الشاکرین
’’(محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔ اگر محمد ؐ وفا ت پا جائیں یا شہید کر دیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل (کفر کی جانب) پھر جائو گے؟ او ر جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے وہ اللہ کو ذرا سا بھی ضرر نہیں پہنچا سکتا اور عنقریب اللہ شکر گزار بندوں کو نیک بدلہ دے گا)‘‘۔
جب حضرت عمرؓ کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو انہیں یقین ہو گیا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو چکے ہیں۔ اس یقین کاان پر اتنا شدید اثر ہوا کہ ان کی ٹانگیں ان کا بوجھ نہ سہار سکیں اور وہ بے سدھ ہو کر زمین پر گر پڑے۔
آئیے ذرا غور کریں اور اپنے نفوس میں اس واقعے کا بنظر غائر جائزہ لیں کہ جس سے ابوبکرؓ کی شخصیت کا ایک اور عظیم الشان پہلو واضح ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں سے اگر کوئی شخص ایسا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے صدمے کے اثر سے اس حد تک پہنچ سکتا تھا جس حد تک حضرت عمرؓ پہنہچے تو وہ صرف ابوبکرؓ ہو سکتے تھے کیونکہ وہ آپ کے صفی اور ہم نشین تھے۔ انہوں نے اپنی ساری عمر آپ ؐ کی خدمت میں اور آپ ؐ کے لائے ہوئے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وقت کر دی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے اپنے ایک بندے کو حق دیا ہے کہ خواہ وہ دنیا کی زندگی اختیار کر لے یا آخرت کی زندگی اور اس نے آخرت کی زندگی اختیار کر لیل تو ابوبکرؓ کے روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور آپؐ نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر ہماری جانیں اور ہماری اولاد قربان ہو کیا ہم آپ کے بعد زندہ رہ سکیں گے؟ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کاسخت صدمہ آپ کو حضرت عمرؓ کی طرح بے ہوش نہ کر سکا اورجب انہیں یقین ہو گیا کہ آپؐ ملا ء اعلیٰ کو تشریف لے گئے ہیں تو انہوں نے فوراً مجمع عام میں آ کر اس کا اعلان کا دیا۔
جو تقریر انہوں نے اس وقت کی اور جو آیت اس موقع پر پڑھی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں اپنے نفس پر کتنا قابو حاصل تھا۔ اور ان میں مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی کتنی زبردست قوت موجو د تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات جیسے عظیم الشان صدمے کی بھی خبر سن کر انہوں نے ہوش وحواس بجا رکھے اور ان پر کسی قسم کی سراسیمگی طاری نہ ہوئی۔ ہماری حیرت و تعجب کی انتہا نہیں رہتی جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اوصاف ایک دوسرے شخص سے ظاہر ہوئے جو انتہائی رقیق القلب تھا اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتاتھا۔
یہ گھڑی مسلمانو ں کے لیے قیامت سے کم نہ تھی۔ ابوبکرؓ نے نہ صرف ایسے سخت وقت میں اپنے اوسان بجا رکھے بلکہ بعد میں بھی جب کبھی مسلمانوں پرکوئی برا وقت پڑا تو اسی قوت ارادی اوراولوالعزمی سے کام لے کر تمام خطرات کو دور کر دیا۔ یہی قوت ارادی تھی کہ جسے بروئے کار لا کر ابوبکرؓ نے مسلمانوں اور اسلام کو ایک ایسے فتنے سے بچا لیا جو اگر خدانخواستہ شدت اختیار کرلیتا تو نہ معلوم اسلام کا کیا حشر ہوتا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔