Saturday 18 June 2016

ضالد بن ولید کی سبہ سالاری


خالدؓ بن ولید کو ابوبکرؓ نے جس لشکر کی کمان سپرد کی تھی وہ تمام لشکروں سے زیادہ مضبوط تھا اور اس میں مہاجرین و انصار کے منتخب آدمی جمع تھے جن کا انتخاب خود خالد نے کیا تھا۔ صفحات آئندہ میں آپ دیکھیں گے کہ ان لوگوں نے جنگ ہائے ارتداد میں بے نظیر کارنامے انجام دئیے اور عراق و شام کی جنگوں میں تو انہوں نے وہ معرکے سر کیے جنہیں کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ان فوجوں کی کامیابی کا راز خالد بن ولید کی سپہ سالاری میں مضمر تھا۔ خالد کو جو جنگی مہارت حاصل تھی اس کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سکندر اعظم، چنگیز خاں، جولیس سیزر ہنی بال اور نپولین کی شخصیتیں خواہ کتنی ہی عظیم کیوں نہ نظر آتی ہوں لیکن حق یہ ہے کہ خالدؓ کی شخصیت کے آگے وہ سب ہیچ ہیں۔ وہ اسلام کے بطل جلیل تھے اور ہر قسم کے خطرات و خدشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دشمنوں کی صفوں میں دلیرانہ گھس جانا ان کا خاص شیوہ تھا۔ فنون جنگ سے گہری واقفیت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ دشمن کا ہر چال اور اس کا ہر منصوبہ ان کی نگاہ میں ہوتا تھا اور مخالف کی کوئی حرکت ان سے چھپی نہ رہ سکتی تھی۔ تمام مسلمانوں کو ان کی صلاحیتوں کا علم تھا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنگ موتہ میں مسلمانوں کی قلیل التعداد فوج کو ہزار ہا رومیوں کے نرغے سے نکال لانے کی بنا پر سیف اللہ کا خطاب مرحمت فرمایا تھا۔ زندگی بھر انہوں نے کبھی شکست نہیں کھائی، ہمیشہ فتح یاب ہی ہوتے رہے اور اسی حالت میں وفات پائی۔
اسلام لانے سے قبل بھی خالد کا شمار قریش کے چوٹی کے بہادروں میں ہوتا تھا۔ جنگ احد اور خندق میں وہ کفار کے دوش بہ دوش مسلمانوں سے لڑے۔ سرتاپا فوجی ہونے کی وجہ سے ان کی طبیعت میں خشونت، تندی اور تیزی آ گئی تھی۔ دشمن کو سامنے دیکھ کر ان سے مطلق صبر نہ ہو سکتا اور چاہتے تھے کہ جس قدر جلد ممکن ہو اس پر ٹوٹ پڑیں۔ اللہ کا فضل ہمیشہ ان کے شام حال رہا ورنہ ممکن تھا کہ اپنی جلد بازی کے باعث انہیں بھاری نقصان سے دو چار ہونا پڑتا۔ دشمن بڑی سے بڑی تعداد اور کثر اسلحہ کے باوجود کبھی انہیں مرعوب نہ کر سکتا تھا۔ صلح حدیبیہ سے اگلے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرمۃ القضاء کے لیے مکہ تشریف لے گئے تو خالد مسلمانوں سے حد درجہ نفرت کے باعث مکہ چھوڑ کر ہی چلے گئے۔ لیکن اچانک اللہ نے ان کے دل پر پڑے ہوئے تاریک پردے ہٹا دئیے اور انہیں حق و صداقت سے آگاہی عطا فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ واپس تشریف لے جانے کے بعد خالد مکہ واپس آ گئے اور ایک روز انہوں نے قریش کے مجمع میں علانیہ کہہ دیا کہ اب ہر ذی عقل انسان پر یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ جادوگر ہیں نہ شاعر، ان کا کلام یقینا اللہ کی طرف سے ہے، اب قریش کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع اختیار کے بغیر چارہ نہیں۔
خالدؓ کی زبان سے یہ کلمات سن کر قریش کو سخت حیرت ہوئی۔ ان کے وہم میں بھی یہ بات نہ آ سکتی تھی کہ خالد کا میلان اسلام کی جانب ہو سکتا ہے۔ عکرمہ بن ابوجہل اور خالد کے مابین بحث بھی ہوئی لیکن خلاف معمول اس نے تیزی اختیار نہ کی۔ ابو سفیان اس اجتماع میں موجود نہ تھا۔ جب اسے اس واقعے کا علم ہوا تو اس نے انہیں بلا کر پوچھا کیا تمہارے اسلام لانے کی خبر سچ ہے؟ خالدؓ نے جواب دیا۔ ہاں میں اسلام لے آیا ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر یقین رکھتا ہوں۔ یہ سن کر ابوسفیان کو بہت غصہ آیا اور اس نے کہا لات اور عزیٰ کی قسم! اگر یہی بات ہے تو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تم ہی سے نپٹ لیتا ہوں۔ خالدؓ نے جواب دیا۔ اسلام بہرحال سچا ہے خواہ کوئی شخص اس بات کو کتنا ہی ناپسند کیوں نہ کرے۔
اسلام لانے کے بعد خالد مدینہ چلے آئے۔ اپنی جنگی قابلیت کی وجہ سے مسلمانوں میں خاص قدر و منزلت حاصل کر لی اور اس امر کے باوجود کہ ان کی ساری عمر اسلام کی مخالفت میں گزری تھی، ہر شخص انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگا۔ اس عزت و توقیر میں گراں قدر اضافہ اس وقت ہوا جب جنگ موتہ کے بعد انہیں دربار نبوی سے سیف اللہ کا خطاب مرحمت ہوا۔ بعد میں انہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو اس خطاب کا پورا پورا مستحق ثابت کیا۔ عراق اور شام کی فتوحات انہیں کے ذریعے سے ہوئیں۔ فارس اور روم کی عظیم الشان سلطنتیں جو اس زمانے میں روئے زمین کی مالک تھیں، انہیں کے ہاتھوں نابود ہوئیں ۔ ان ہی اوصاف کی بدولت انہیں مرتدین کے مقابلے میں سب سے بڑے لشکر کی سپہ سالاری نصیب ہوئی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔