رسول اللہﷺ حالات وتغیرات کا مطالعہ کہیں زیادہ دقت ِ نظر سے فرمارہے تھے۔ آپﷺ سمجھ رہے تھے کہ اگر آپﷺ نے ان فیصلہ کن لمحات میں رومیوں سے جنگ لڑنے میں کاہلی اور سستی سے کام لیا ، رومیوں کو مسلمانوں کے زیر اثر علاقوں میں گھسنے دیا ، اور وہ مدینہ تک بڑھ اور چڑھ آئے تو اسلامی دعوت پر اس کے نہایت بُرے اثرات مرتب ہوں گے۔ مسلمانوں کی فوجی ساکھ اکھڑ جائے گی اور وہ جاہلیت جو جنگِ حنین میں کاری ضرب لگنے کے بعد آخری دم توڑ رہی ہے ، دوبارہ زندہ ہوجائے گی۔ اور منافقین جو مسلمانوں پر گردش ِ زمانہ کا انتظار کررہے ہیں ، اور ابو عامر فاسق کے ذریعہ شاہ روم سے رابطہ قائم کیے ہوئے ہیں ، پیچھے سے عین اس وقت مسلمانوں کے شکم میں خنجر گھونپ دیں گے ، جب آگے سے رومیوں کا ریلا ان پر خونخوار حملے کررہا ہوگا۔ اس طرح وہ بہت ساری کوشش رائیگاں چلی جائیں گی جو آپ نے اور آپ کے صحابہ ٔ کرام نے اسلام کی نشر واشاعت میں صرف کی تھیں۔ اور بہت ساری کامیابیاں ناکامی میں تبدیل ہوجائیں گی جو طویل اور خونریز جنگوں اور مسلسل فوجی دوڑ دھوپ کے بعد حاصل کی گئی تھیں۔
رسول اللہﷺ ان نتائج کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ ا س لیے عُسرت وشدت کے باوجود آپﷺ نے طے کیا کہ رومیوں کودار الاسلام کی طرف پیش قدمی کی مہلت دیے بغیر خود ان کے علاقے اور حدود میں گھس کر ان کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑنی ہے۔
جب ہرقل کے عظیم لشکر کے مسلمانوں پر حملہ کی خبریں تمام عرب میں پھیل گئیں اور اور قرائن اس قدر قوی تھے کہ انہیں غلط سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں رہی ، حضور اکرم ﷺ نے فوج کی تیاری کا حکم دے دیا، سوء اتفاق یہ کہ ملک میں اس وقت قحط سالی پھیلی ہوئی تھی اور شدت کی گرمی کا زمانہ تھا، ان حالات میں منافقین کی ایک جماعت کے لوگ جو بظاہر خود کو مسلمان کہتے تھے لوگوں سے یہ کہہ رہے تھے کہ اس شدت کی گرمی میں نہ نکلو، وہ خود بھی شرکت سے جی چراتے اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے، چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:
(ترجمہ) " اور انہوں نے کہا گرمی میں جنگ کے لئے نہ نکلو، آپﷺ کہہ دیجیے جہنم کی آگ زیادہ گرم ہے اگر وہ سمجھیں تو کم ہنسیں اور زیادہ روئیں، ان کرتوت کے بدلے میں جو وہ کرتے ہیں"
(سورہ توبہ : ۸۲)
آپﷺ کا دستور تھا کہ جب کسی غزوے کا ارادہ فرماتے تو کسی اور ہی جانب کا توریہ کرتے۔ لیکن صورت حال کی نزاکت اور تنگی کی شدت کے سبب اب کی بار آپﷺ نے صاف صاف اعلان فرمادیا کہ رومیوں سے جنگ کا ارادہ ہے تاکہ لوگ مکمل تیاری کرلیں۔ آپﷺ نے اس موقع پر لوگوں کو جہاد کی ترغیب بھی دی۔ اور جنگ ہی پر ابھارنے کے لیے سورۂ توبہ کا بھی ایک ٹکڑا نازل ہوا۔ ساتھ ہی آپﷺ نے صدقہ وخیرات کر نے کی فضیلت بیان کی اور اللہ کی راہ میں اپنا نفیس مال خرچ کر نے کی رغبت دلائی۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔