Thursday, 10 December 2015

حدیثِ جبریل


حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد ایک دن آنحضرتﷺ صحابہؓ کرام کے درمیان مسجد نبوی میں تشریف فرماتھے ، حضرت عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ اچانک ایک اجنبی حاضر ہوا ، اس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بے حد سیاہ تھے ، لباس سے خوشبو کی مہک آرہی تھی ، اجنبی ہونے کے باوجود اس پر سفر کے کچھ آثار نہ تھے ، ہم میں سے کوئی اس نووارد کو جانتا نہیں تھا، وہ آپﷺ کے قریب نہایت ادب سے دو زانو ہوکر بیٹھ گیا اور گھٹنے حضورﷺکے گھٹنوں سے ملا دئیے ،اس شخص نے دریافت کیا … ائے محمدﷺ ! اسلام کیا ہے ؟
حضور ﷺنے فرمایا :
اسلام یہ ہے کہ تم شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی اِلہٰ نہیں اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کر و ، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر حج بیت اللہ کی استطاعت ہے تو حج کرو، نووارد نے جواب سن کر کہا ، آپﷺ نے سچ کہا ،اس نے پھر پوچھا … مجھے بتلائیے کہ ایمان کیا ہے ؟
فرمایا :
ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو ‘ اس کے فرشتوں کو ‘ اس کی کتاب کو ‘ اس کے رسولوں اور یوم آخر یعنی قیامت کو حق جانو اور حق مانو اور ہر خیر و شر کی تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو ، یہ سن کر بھی اس نے کہا کہ آپﷺ نے سچ کہا،
حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ یہ شخص سوال بھی کرتا ہے اور خود ہی اس کی تصدیق کرتا ہے، پھر اس نے پوچھا … احسان کس چیز کا نام ہے ؟
فرمایا : احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت ایسی دل لگاکر کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اگر یہ نہ ہوسکے تو یہ خیال رہے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ،اس نے سوال کیا … قیامت کب آئے گی ؟فرمایا : جس سے یہ بات پوچھی جا رہی ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ، عرض کیا: تو مجھے اس کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے ، فرمایا : میں تمہیں اس کی علامتیں بتائے دیتا ہوں ،
(۱) جب لونڈی اپنے آقا اور مالک کو جنے گی
(۲) تم دیکھو گے کہ جن کے پاؤں میں جوتا اور تن پر کپڑا نہیں جو تہی دست اور بکریاں چرانے والے ہیں وہ بڑی بڑی عمارتیں بنائیں گے اور ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے،
صحیح بخاری کے بموجب قیامت غیب کی ان پانچ باتوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، پھر آنحضرت ﷺ نے سورۂ لقمان کی آیت نمبر ۳۴ تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے :
" اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینہ برساتا ہے اور وہی (حاملہ کے ) پیٹ کی چیز وں جانتا ہے (نر ہے یا مادہ ) اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کس سر زمین میں اُسے موت آئے گی، بے شک اللہ ہی جاننے والا ہے، خبر دار ہے "
(سورۂ لقمان : ۳۴ )
پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! اس کو پھر لے آؤ ، لوگوں نے جاکر دیکھا تو وہاں کسی کو نہ پایا ،
حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ اس واقعہ کو کچھ عرصہ بیت گیا، ایک دن حضورﷺ نے فرمایا: ائے عمر… کیا تمہیں پتہ ہے کہ وہ شخص جو سوالات کر رہا تھا کون تھا ؟
حضرت عمرؓ نے عرض کیا : اللہ اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ، فرمایا:وہ جبرئیل ؑ تھے تمہاری مجلس میں اس لئے آئے تھے کہ تمہیں تمہارا دین سکھائیں ،یہ بہت مشہور حدیث ہے جو عام طور پر حدیث جبرئیل ؑ کے نام سے مشہور ہے ، اسے " اُم الاحادیث " بھی کہا جاتا ہے ، اسے حیات طیبہ کی ۲۳ سالہ جد وجہد کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے ، یہ واقعہ تکمیل دین کی آیت کے نزول کے بعد اس وقت ہوا جبکہ اس دنیا میں آپﷺ کی عمر مبارک میں صرف تین دن باقی رہ گئے تھے،
حضور ﷺنے فرمایا کہ میں جبرئیل کو ہر شکل میں پہچان لیتا ہوں لیکن اس دفعہ نہ پہچان سکا کیونکہ وہ ایک بدو سائل کے بھیس میں آئے تھے، امین وحی نہیں بلکہ ملائکہ کے نمائندہ بن کر آئے تھے، میں نے انھیں افق اور سدرۃالمنتہیٰ پر ہیت اصلی میں بھی دیکھا، یہ موقع عینی مخلوق کی نمائندگی کا تھا لہٰذا پردہ بعد میں اٹھا ، دین مکمل ہوگیا ، اب قیامت تک اس میں نہ کوئی کمی ہوسکتی ہے اور نہ بیشی ، زمین وآسمان کی مخلوق نے گواہی دی.
(سیرت احمد مجتبیٰ)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔