Thursday 10 December 2015

جنگی قوانین اور اصول و ضوابط


کہتے ہیں جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے لیکن اسلام اس نظریہ کی نفی کرتا ہے، ہم اسی تناظر میں اسلام کو پرکھے گیں کہ جنگ جس میں تشدد اور دہشت کا عنصر شامل ہوتا ہے اسلام کی اس بارے کیا تعلیمات ہیں، جب جنگ جیسے موضوع پر ہم اسلام کی تعلیمات سمجھ لیں گے تو عام حالات میں اسلام کا پیغام سمجھنا مشکل نہیں ہو گا، چند دن پہلے ایک ملحد کی پوسٹ دیکھی جس میں اس نے اسلام پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی روبوٹ میں قرآن و حدیث فیڈ کر دیں تو روبوٹ کا ردعمل کیا ہو گا، آئے دیکھیں قرآن و حدیث پر عمل کرنے سے کیسا انسان بنتا ہے۔
رسول اللہﷺ نے جنگ کے لیے شریفانہ ضوابط بھی مقرر فرمائے اور اپنے فوجیوں اور کمانڈروں پر ان کی پابندی لازمی قرار دیتے ہوئے کسی حال میں ا ن سے باہر جانے کی اجازت نہ دی۔ قتال کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی جو ہدایات ہیں، وہ انسانی تاریخ میں منفرد اہمیت کی حامل ہیں، جہاد کے خلاف جو مہم جوئی چلائی جا رہی ہے اور اسے جس طرح دہشت گردی کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے، وہ سراسر بدنیتی اور تعصب پر مبنی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قتال و جہاد کے لیے جو ہدایات دیں، ان کی تفصیلات یوں ہیں :
1. غیر اہل قتال کو نقصان پہنچانے سے منع کیا، نبی کریم نے اہل قتال اور غیر اہل قتال کا فرق واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ غیر اہل قتال کو نقصان نہ پہنچایا جائے، عورتوں، بچوں، بوڑھوں، بیماروں، گوشہ نشینوں، زاہدوں اور مندروں کے مجاوروں اور پجاریوں وغیرہ کو قتل نہ کیا جائے۔
2. رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم مجاہدین کو رخصت کرتے ہوئے فرماتے "کسی بوڑھے، بچے، نابالغ لڑکے اور عورت کو قتل نہ کرو، اموال غنیمت میں چوری نہ کرو، جنگ میں جو کچھ ہاتھ آ جائے سب ایک جگہ جمع کر دو، نیکی اور احسان کرو کیونکہ اللہ تعالٰی احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے" ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد )
3. ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی غزوے میں ایک مقتول عورت دیکھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا ۔(صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر)
اسلام نے جنگ کے بارے میں بھی کچھ آداب و حقوق مقرر کیے ہیں، ان کی تفصیلات یوں ہیں :
1. " غفلت میں حملہ کرنے کی ممانعت "
عرب عموماً شب خون مارتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عادت کو بند کر دیا اور صبح سے پہلے حملہ کرنے کی ممانعت کی، حضرت انس رضی اللہ عنہ غزوہ خیبر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کسی قوم کے پاس رات کو پہنچ جاتے تو صبح ہونے سے پہلے اس پر حملہ نہیں کرتے تھے ۔(صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر )
2. "دشمن کو آگ میں جلانے کی ممانعت "
حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :آگ کا عذاب دینا سوائے آگ کے پیدا کرنے کے اور کسی کو سزاوار نہیں ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد)
3. " باندھ کر قتل کرنے کی ممانعت "
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ آپ نے قتل صبر (باندھ کر مارنے) سے منع فرمایا ہے ۔(صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر)
4. " لوٹ مار کی ممانعت "
ایک دفعہ سفر جہاد میں اہل لشکر نے کچھ بکریاں لوٹ لیں اور ان کا گوشت پکا کر کھانا چاہا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو علم ہوا تو آپ نے دیگچیاں الٹ دینے کا حکم دیا اور فرمایا : لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلال نہیں ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد)
5. "تباہ کاری کی ممانعت"
افواج کی پیش قدمی کے وقت فصلوں کو خراب کرنا، کھیتوں کو تباہ کرنا، بستیوں میں قتل عام اور آتش زنی کرنا، اسلامی نقطہ نگاہ سے ناجائز ہے
ارشاد باری تعالٰی ہے :واذا تولی سعی فی الارض لیفسد فیھا ویھلک الحرث والنسل واللہ لا یحب الفساد
اور جب وہ پلٹتا ہے تو زمین میں دور دھوپ کرتا ہے تاکہ اس میں فساد پھیلائے اور کھیتی اور نسل کو تباہ کرے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ۔(البقرۃ، 205 )
اسلام نے صرف خصوصی حالات میں ضرورت کے تحت درختوں کو کاٹنے اور جانوروں کو زبح کرنے کی اجازت دی ہے، یعنی جب ان امور میں کوئی مصلحت ہو۔
6. "مثلہ کی ممانعت "
دشمن کی لاشوں کی بے حرمتی کرنا اور ان کے اعضاء کی قطع و برید کرنے سے بھی اسلام نے سختی سے منع کیا، حضرت عبداللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لوٹ مار اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔(صحیح بخاری، کتاب المظالم )
مجاہدین کی روانگی سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : بدعہدی نہ کرو، غنیمت میں خیانت نہ کرو اور مثلہ نہ کرو
(صحیح مسلم، کتاب الجھاد)
7. "قتل اسیر کی ممانعت "
فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے شہر میں داخل ہونے سے پہلے اعلان فرمایا : کسی زخمی پر حملہ نہ کیا جائے، کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے، کسی قیدی کو قتل نہ کیا جائے اور جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے وہ امان میں ہے "۔ (فتوح البلدان للبلازری)
8. "قتل سفیر کی ممانعت "
سفیروں اور قاصدوں کے قتل سے بھی نبی الرحمت والامن صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ۔مسیلمہ کذاب کی طرف سے دو آدمی (قاصد) گستاخانہ پیغام لے کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم! اگر قاصدوں کو قتل کرنا ممنوع نہ ہوتا تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد )
9. "بدعہدی کی ممانعت "
عہد توڑنے اور معاہدین (ذمیوں) پر دست درازی کرنے کی مذمت میں بے شمار احادیث آئی ہیں، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جو کسی معاہد (ذمی) کو قتل کرے گا، اس کو جنت کی خوشبو تک نصیب نہ ہو گی ۔(صحیح بخاری، کتاب الجزیۃ والموادعۃ)
10. "بدنظمی اور انتشار کی ممانعت "
عرب لوگ دور جاہلیت میں جب جنگ کے لیے نکلتے تو بدنظمی کا شکار ہوتے، راستوں کو تنگ کرتے اور آبادیوں کو پریشان کرتے، ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس بات کی شکایت پہنچی کہ مجاہدین میں بدنظمی پھیلی ہوئی ہے، منزل کو تنگ کر رکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرمایا : جو کوئی منزل کو تنگ کرے گا یا راہ گیروں کو لوٹے گا تو اس کا جہاد نہیں ہے ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد)
11. وحشیانہ افعال کے خلاف عام ہدایت
دور جاہلیت کے برعکس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب جہاد کے لیے مجاہدین کو روانہ کرتے تو فرماتے : اللہ کی راہ میں اللہ کے نام کے ساتھ جہاد کرو، ہر اس شخص سے جو اللہ کا منکر ہو، جہاد کرو اور مال میں خیانت نہ کرو، بدعہدی نہ کرو، مثلہ نہ کرو اور بچوں کو قتل نہ کرو ۔(صحیح مسلم، کتاب الجھاد)
خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام کی طرف فوجیں روانہ کیں تو ان کو دس ہدایتیں دی تھی،
1:کسی عورت کو قتل نہ کرنا
2:بچے کو قتل نہ کرنا
3:بوڑھے کو قتل نہ کرنا
4:کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا
5:آبادی کو ویران نہ کرنا
6:بکری اور اونٹ کو زخمی نہ کرنا، مگر یہ کہ انہیں کھانا ہو
7:شہد کی مکھیوں کو نہ جلانا
8:اور نہ ان کو بھگانا
9:امانت میں خیانت نہ کرنا
10:بزدلی نہ دکھانا
ان احکام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے جنگ و جہاد کو ان تمام وحشیانہ افعال سے پاک کر دیا جو اس عہد میں جنگ کا ایک غیر منفک جزو بنے ہوئے تھے، وحشیانہ افعال اور یہ سب کچھ آئین جنگ کے خلاف قرار دیا گیا اور جنگ صرف ایسی چیز رہ گئی جس میں شریف اور بہادر آدمی دشمن کو کم سے کم نقصان پہنچا کر اس کے شر کو دفع کرنے کی کوشش کرے، اس اصلاحی تعلیم نے دو سال کی قلیل مدت میں جو عظیم الشان نتائج پیدا کیے، ان کا بہترین نتیجہ فتح مکہ ہے جس کے باعث لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اور ہر طرف امن و امان کا ماحول پیدا ہوا.

یہ اور اس طرح کے دوسرے بلند پایہ قواعد وضوابط تھے جن کی بدولت جنگ کا عمل جاہلیت کی گندگیوں سے پاک وصاف ہو کر مقدس جہاد میں تبدیل ہوگیا۔( اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: زاد المعاد ۲/۶۴، ۶۸۔)

2 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

Very nine

Anonymous نے لکھا ہے کہ

بہت عمدہ تحریر
ان اصولوں کو شاید آج کا مسلمان تک نہیں جانتا کم از کم اکثریت نہیں جانتی۔ ضرورت ہے کہ اسے عام کیا جائے۔
جزاک اللہ!

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔