Thursday 10 December 2015

حیاتِ طیبہ کا آخری باب


جب دعوت دین مکمل ہوگئی اور عرب کی نکیل اسلام کے ہاتھ میں آگئی تو رسول اللہﷺ کے جذبات واحساسات ، احوال وظروف اور گفتارو کردار سے ایسی علامات نمودار ہونا شروع ہوئیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ اب آپﷺ اس حیات مستعار کو اور اس جہان فانی کے باشندگان کو الوداع کہنے والے ہیں۔ مثلا ً:
آپﷺ نے رمضان ۱۰ ھ میں بیس دن اعتکاف فرمایا جبکہ ہمیشہ دس ہی دن اعتکاف فرمایاکرتے تھے، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو اس سال دو مرتبہ قرآن کا دَور کرایا جبکہ ہر سال ایک ہی مرتبہ دَور کرایا کرتے تھے۔ آپﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا : مجھے معلوم نہیں غالبا میں اس سال کے بعد اپنے اس مقام پر تم لوگوں سے کبھی نہ مل سکوں گا۔ جمرئہ عقبہ کے پاس فرمایا : مجھ سے اپنے حج کے اعمال سیکھ لو۔ کیونکہ میں اس سال کے بعد غالبا ًحج نہ کرسکوں گا۔ آپﷺ پر ایام تشریق کے وسط میں سورۂ نصر نازل ہوئی۔ اور اس سے آپﷺ نے سمجھ لیا کہ اب دنیا سے روانگی کا وقت آن پہنچا ہے۔ اور یہ موت کی اطلاع ہے۔
اوائل صفر ۱۱ ھ میں آپﷺ دامنِ اُحد میں تشریف لے گئے۔ اور شہداء کے لیے اس طرح دعا فرمائی گویا زندوں اور مردوں سے رخصت ہو رہے ہیں۔ پھر واپس آکر منبر پر فروکش ہوئے۔ اور فرمایا : میں تمہارا میر کارواں ہوں۔ اور تم پر گواہ ہوں۔ واللہ! میں اس وقت اپنا حوض ( حوضِ کوثر ) دیکھ رہا ہوں۔ مجھے زمین اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں۔ اور واللہ! مجھے یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کروگے۔ بلکہ اندیشہ اس کا ہے کہ دنیا کے بارے میں تنافس کروگے۔ (متفق علیہ۔ صحیح بخاری ۲/۵۸۵، فتح الباری ۳/۲۴۸ حدیث نمبر ۱۳۴۴،۳۵۹۶، ۴۰۴۲، ۴۰۸۵،۶۴۲۶،۶۵۹۰)
ایک روز نصف رات کو آپﷺ بقیع تشریف لے گئے۔ اور اہل بقیع کے لیے دعائے مغفرت کی۔ فرمایا : اے قبر والو ! تم پر سلام ! لوگ جس حال میں ہیں اس کے مقابل تمہیں وہ حال مبارک ہو جس میں تم ہو۔ فتنے تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح ایک کے پیچھے ایک چلے آرہے ہیں۔ اور بعد والا پہلے سے زیادہ برا ہے۔ اس کے بعد یہ کہہ کر اہل قبور کو بشارت دی کہ ہم بھی تم سے آملنے والے ہیں۔

۲۹ صفر ۱۱ ھ روز دوشنبہ کو رسول اللہﷺ ایک جنازے میں بقیع تشریف لے گئے۔ واپسی پر راستے ہی میں درد ِ سر شروع ہوگیا۔ اور حرارت اتنی تیز ہوگئی کہ سر پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی۔ یہ آپﷺ کے مرض الموت کا آغاز تھا۔ آپﷺ نے اسی حالت مرض میں گیارہ دن نماز پڑھائی۔ مرض کی کل مدت ۱۳ یا ۱۴ دن تھی۔

رسول اللہﷺ کی طبیعت روز بروز بوجھل ہوتی جارہی تھی۔ اس دوران آپﷺ ازواج مطہرات سے پوچھتے رہتے تھے کہ میں کل کہاں رہوں گا ؟ میں کل کہاں رہوں گا ؟ اس سوال سے آپﷺ کا جو مقصود تھا ازواج مطہرات اسے سمجھ گئیں۔ چنانچہ انہوں نے اجازت دے دی کہ آپﷺ جہاں چاہیں رہیں۔ اس کے بعد آپﷺ حضرت عائشہ ؓ کے مکان میں منتقل ہوگئے۔ منتقلی کے وقت حضرت فضل بن عباس اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے درمیان ٹیک لگا کر چل رہے تھے۔ سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اور پائوں زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ اس کیفیت کے ساتھ آپ حضرت عائشہ کے مکان میں تشریف لائے۔ اور پھر حیات ِمبارکہ کا آخری ہفتہ وہیں گذارا۔
حضرت عائشہ ؓ معوذات اور رسول اللہﷺ سے حفظ کی ہوئی دعائیں پڑھ کر آپﷺ پر دم کرتی رہتی تھیں۔ اور برکت کی امید میں آپﷺ کا ہاتھ آپﷺ کے جسم مبارک پر پھیرتی رہتی تھیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔