Thursday 10 December 2015

طوافِ وداع


بوقت سحر بیدار ہو کر سواری پر طواف وداع کے لئے مسجدحرام میں تشریف لے گئے، طواف کے بعد ملتزم پر وقوف فرمایا(ملتزم ‘ حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان ہے )یہاں سے چاہ زم زم پر جا کر خود اپنے دست مبارک سے ڈول کھینچا اور قبلہ رو ہو کر پانی نوش فرمایا اور بچاہوا پانی کنویں میں ڈال دیا، حضورﷺ کے اسی عمل کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے زم زم کو چشمہ بقا بنا دیا، آپﷺ نے دس دن مکہ میں قیام فرمایا اور قصر نمازیں ادا کیں ، سلام کے بعد ارشاد فرماتے، مکہ والے سنو ! اپنی نمازیں پوری کرو، ہم تومسافر ہیں ،
طواف وداع کے بعد آپﷺ مغموم ‘ آب دیدہ اور حزن و ملال سے مغلوب تھے ، مکہ سے واپسی کے وقت کدا( اسفل) والا راستہ اختیار فرمایا ، یہ سمِت اس راستہ کے بالکل مخالف تھی جس سے مکہ میں داخل ہوئے تھے، کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہی سنت تھی کہ بیت اللہ کی تعظیم کی خاطر علو ( بلندی)کی طرف سے مکہ میں داخل ہوتے او ر اسفل ( نشیب) والے راستہ سے باہر نکلتے، ابن حزم کے قول کے مطابق اسی پر عمل فرماتے ہوئے آپﷺ معہ صحابہ ؓ ۱۴ ذی الحجہ بروز بدھ سورج نکلنے سے پہلے مکہ سے روانہ ہوگئے، مقام ذی طویٰ میں پڑاؤ کیا اور وہیں رات گزاری اور صبح کو مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوگئے،
راستہ میں ایک مقام خم آیا جو حجفہ سے تین میل کے فاصلہ پر ہے ، یہاں ایک تالاب ہے ، عربی میں تالاب کو غدیر کہتے ہیں ، اور اس لئے اس کا نام عام روایتوں میں غدیر خُم آتا ہے، یہاں آپﷺ نے نماز ظہر کے بعد صحابہؓ کو جمع کر کے ایک مختصر خطبہ ارشاد فرمایا
" حمد ثنا کے بعد ، ائے لوگو ! میں بھی بشر ہوں، ممکن ہے کہ خدا کا فرشتہ جلد آجائے اور مجھے ( موت) قبول کرنا پڑے، میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑتاہوں ، ایک اللہ کی کتاب جس کے اندر ہدایت اور روشنی ہے، اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑے رہو ، دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں خدا کو یاد دلاتا ہوں ،آخری جملہ کو آپ ﷺنے تین دفعہ مکرر فرمایا، یہ صحیح مسلم (مناقب حضرت علیؓ ) کی روایت ہے، نسائی، مسند احمد وغیرہ میں کچھ فقرے بھی ہیں جن میں حضرت علیؓ کی منقبت ظاہر کی گئی ہے ، ان روایتوں میں ایک فقرہ اکثر مشترک ہے،
" جس کو میں محبوب ہوں علیؓ بھی اس کو محبوب ہونا چاہیے ، الٰہی جو علیؓ سے محبت رکھے اس سے تو بھی محبت رکھ اور جو علیؓ سے عداوت رکھے تو بھی عداوت رکھ"
احادیث میں خاص یہ تصریح نہیں کہ ان الفاظ کے کہنے کی ضرورت کیا پیش آئی ؟ بخاری میں ہے کہ اسی زمانہ میں حضرت علیؓ یمن بھیجے گئے تھے، جہاں سے واپس آکر حج میں شامل ہوئے تھے، قیام یمن کے زمانہ میں حضرت بریدہؓ اسلمی کو حضرت علیؓ سے کچھ شکایت ہوگئی تھی، جو حضرت بریدہؓ کا قصور فہم تھا، چونکہ یہ بات لوگوں میں پھیل گئی تھی اس لئے آنحضرت ﷺ نے بطور خاص حضرت علیؓ کا ذکر کر کے فرمایا:" علیؓ کو اس سے زیادہ کا حق تھا"
(سیرت النبی جلد اول )
مدینہ کے قریب پہنچ کر ذولحلیفہ میں قیام فرمایا ، معرس جو مدینہ سے چھ میل دور پر ہے اس راستہ کو اختیار فرمایا اور مدینہ منورہ میں داخل ہوئے، ثنیہ یا مقام قد قدپر پہنچے تو زبان مبارک پر یہ دعا تھی:
" خدا بزرگ و برتر ہے ‘ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ‘ کوئی اس کا شریک نہیں ‘ بس اسی کی سلطنت ہے ، اس کے لئے مدح و ستائش ہے ، وہ ہر بات پر قادر ہے ، ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں ، سجدہ کرنے والے ہیں ، اپنے رب کی ثنا کرنے والے ہیں ، اللہ نے اپنا وعدہ پورا کر دیا، اس نے اپنے بندہ کی مدد کی اور اس نے تمام لشکروں کو تنہا شکست دی"

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔