اس طویل اور کامیاب سفر سے واپسی کے بعد رسول اللہﷺ نے مدینہ میں قدرے طویل قیام فرمایا۔ اس دوران آپ وفود کا استقبال فرماتے رہے۔ حکومت کے عُمّال بھیجتے رہے۔ داعیان ِ دین کو روانہ فرماتے رہے اور جنہیں اللہ کے دین میں داخلے اور عرب کے اندر برپا امر واقعہ کے سامنے سپر اندازی سے انکا ر واستکبار تھا ، انہیں سرنگوں فرماتے رہے۔ ان امور کا مختصر ساخاکہ پیش خدمت ہے۔
وفد بنی عذرہ (صفر۹ھ)
یمن سے بنی عذرہ کا وفد آیا جس میں بارہ افراد شامل تھے، یہ لوگ حضرت رُملہ ؓ بنت حارث تجاریہ کے گھر ٹھہرائے گئے تھے ، آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا ! تم کون لوگ ہو ؟ انہو ں نے عرض کیا ، آپﷺ سے شرف ہم کلامی حاصل کرنے والے اجنبی نہیں ہیں ، ہم قصی کے بھائی بنی عذرہ ہیں ، ہم وہ ہیں جن کی مدد سے قصی نے خزاعہ اور بنی بکر کو مکہ سے نکال باہرکیا تھا، ہماری قصی سے رشتہ داریاں قائم ہیں ، حضور اکرم ﷺ نے اھلاً و سہلاً ( خوش آمدید )کہتے ہوئے فرمایا :تم اپنے گھر ہی میں آئے ہو ، تمہیں پہچانا نہیں تھا، وہ لوگ چنددن مدینہ میں مقیم رہے اور دین کے بارے میں معلومات حاصل کر کے اسلام قبول کر لیا ، بوقت رخصت انہیں انعام اور تحائف دئیے گئے ، ان میں سے ایک کو حضور ﷺ نے چادر اوڑھائی ، حضرت زمل ؓ بن عمر کو قوم کی سرداری کا جھنڈا عطا فرمایا،
وفد بنی کنانہ(۹ہجری)
غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت واثلہ بن الاسقع اللیشی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کئے اور حضور ﷺ کے ہمراہ نماز فجر پڑھی ، جب یہ واپس اپنے وطن گئے تو باپ نے منہ پھیر لیا لیکن بہن نے اسلام قبول کر لیا، جب وہ پھر مدینہ آئے تو اس وقت حضورﷺ تبوک روانہ ہو چکے تھے، حضرت کعبؓ بن عجرہ انہیں ساتھ لے کر تبوک گئے، حضور ﷺ نے انہیں خالدؓ بن ولید کے ساتھ دومتہ الجندل کی مہم پر بھیج دیا،
وفدبلی(ربیع الاول۹ہجری)
یمن کے ایک قبیلہ کا ایک وفد ماہ ربیع الاول میں حضور ﷺکی خدمت میں آیا تھا، وفد کے افراد کی تعداد معلوم نہیں، حضرت ردیفع ؓ بن ثابت انہیں لے کر حضور ﷺکے پاس آئے اور عرض کیا کہ یہ میرے قبیلہ کے لوگ ہیں، ارشاد ہوا کہ تجھے اور تیری قوم کوہم خوش آمدید کہتے ہیں، اللہ جس کے لئے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے اسلام کی ہدایت دیتا ہے ، وفد کے امیرا بو الغیابؓ نے عرض کیا کہ ہم نے بت پرستی سے توبہ کر کے اسلام قبول کر لیا ہے، جو کچھ آپﷺ لائے ہیں اس کی تصدیق کرتے ہیں، انہوں نے کچھ سوالات بھی کئے جن کے جوابات حضور ﷺ نے دئیے، وفد قیام گاہ پر لوٹا تو حضرت ردیفع ؓکہتے ہیں کہ میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ خود کھجوریں لئے میرے گھر کی طرف آ رہے ہیں ، فرمایا ان کھجوروں سے ان کی دعوت کرو، وہ تین دن ٹھہرے ، حضور ﷺنے انعام اور تحائف دے کر رخصت فرمایا،
وفد بنی اسد بن خزیمہ(ابتداء ۹ھ)
اس وفد میں دس افراد شامل تھے، جب یہ وفد آیا تو حضور ﷺ معہ صحابہؓ مسجد میں تشریف فرماتھے ، حضرمی بن عامر نے کہا کہ یا رسول اللہ ! آپﷺ کا کوئی نمائندہ ہماری طرف نہیں آیا ، پھر بھی ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور آپﷺ کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں ، ہم خشک سالی کے موسم میں آپﷺ کے پاس حاضر ہوئے ہیں ، اس موقع پر سورۂ حجرات کی آیت ۱۷ نازل ہوئی :
(ترجمہ ) " یہ لوگ تم پر احسان رکھتے ہیں کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہہ دو اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ دکھایا بشرطیکہ تم سچے ہو"
( سورۂ حجرات : ۱۷ )
اس وفد میں طلحہ بن خویلد بھی شامل تھا جس نے ابو بکرؓ صدیق کے دور خلافت میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔