اس دھوم دھام جوش وخروش اوربھاگ دوڑ کے نتیجے میں لشکر تیار ہوگیا تو رسول اللہﷺ نے حضرت محمد بن مسلمہؓ کو اور کہا جاتا ہے کہ سباعؓ بن عرفطہ کو مدینہ کا گورنر بنایا۔ چونکہ اس غزوہ میں ازواجِ مطہرات میں سے کوئی بھی آپﷺ کے ساتھ نہیں گئیں تھیں اس لئے اہلِ حرم کی حفاظت کے لئے کسی عزیزِ خاص کا رہنا ضروری تھا، آپﷺ نے ان کی دیکھ بھال کے لئے حضرت علیؓ بن ابی طالب کو مدینہ میں رہنے کا حکم دیا لیکن انھوں نے شکایت کی کہ آپﷺ مجھ کو بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جاتے ہیں، آپﷺ نے ارشاد فرمایاکہ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ کے ساتھ تھی، یعنی جس طرح حضرت موسیٰؑ کوہِ طور پر جاتے وقت حضرت ہارونؑ کو اپنا قائم مقام بنا گئے تھے اسی طرح میں تم کو اس سفر میں اپنا قائم مقام بنا رہا ہوں ، حضرت علیؓ اس جواب سے مطمین ہوگئے
(سیرت النبی)
بہرحال رسول اللہﷺ نے اس انتظام کے بعد شمال کی جانب کوچ فرمایا (نسائی کی روایت کے مطابق یہ جمعرات کا دن تھا ) منزل تبوک تھی لیکن لشکر بڑا تھا۔ تیس ہزار مردان جنگی تھے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کا اتنا بڑا لشکر کبھی فراہم نہ ہوا تھا۔ اس لیے مسلمان ہر چند مال خرچ کرنے کے باوجود لشکر کو پوری طرح تیار نہ کرسکے تھے بلکہ سواری اور توشے کی سخت کمی تھی۔ چنانچہ اٹھارہ اٹھارہ آدمیوں کے لیے ایک ایک اونٹ تھا جس پر یہ لوگ باری باری سوار ہوتے تھے۔ اسی طرح کھانے کے لیے بسا اوقات درختوں کی پتیاں استعمال کرنی پڑتی تھیں جس سے ہونٹوں میں ورم آگیا تھا مجبورا ً اونٹوں کو -قلت کے باوجود - ذبح کرنا پڑا، تاکہ اس کے معدے اور آنتوں کے اندر جمع شدہ پانی اور تری پی جاسکے۔ اسی لیے اس کا نام جیش ِ عُسرت (تنگی کا لشکر ) پڑگیا۔
تبوک کی راہ میں لشکر کا گذر حِجر یعنی دیا ر ثمود سے ہوا۔ ثمود وہ قوم تھی جس نے وادیٔ القریٰ کے اندر چٹانیں تراش تراش کر مکانات بنائے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے وہاں کے کنویں سے پانی لے لیا تھا، لیکن جب چلنے لگے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم یہاں کا پانی نہ پینا اور اس سے نماز کے لیے وضو نہ کرنا۔ اور جو آٹا تم لوگوں نے گوندھ رکھا ہے اسے جانوروں کو کھلا دو ، خود نہ کھاؤ۔ آپﷺ نے یہ بھی حکم دیا کہ لوگ اس کنویں سے پانی لیں جس سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔
صحیحین میں ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ جب نبیﷺ حِجر (دیار ِ ثمود ) سے گذرے تو فرمایا: ان ظالموں کی جائے سکونت میں داخل نہ ہونا کہ کہیں تم پر بھی وہی مصیبت نہ آن پڑے جو ان پر آئی تھی۔ ہاں مگر روتے ہوئے۔ پھر آپﷺ نے اپنا سر ڈھکا اور تیزی سے چل کر وادی پار کرگئے۔( صحیح بخاری باب نزول النبیﷺ الحجر ۲/۶۳۷)
راستے میں لشکر کو پانی کی سخت ضرورت پڑی حتیٰ کہ لوگوں نے رسول اللہﷺ سے شکوہ کیا۔ آپﷺ نے اللہ سے دعا کی۔ اللہ نے بادل بھیج دیا، بارش ہوئی۔ لوگوں نے سیر ہو کر پانی پیا اور ضرورت کا پانی لاد بھی لیا۔
رئیس المنافقین عبداﷲ بن اُبی بن سلول ایک گروہ لے کر آپﷺ کے ہمراہ ہوگیا؛ لیکن تھوڑی دور چل کر معہ اپنے ہمراہیوں کے واپس چلاگیا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔