Saturday, 18 June 2016

مرتدین کو آخری پیشکش


لشکروں کی روانگی سے قبل ابوبکرؓ نے مرتدین کو آخری موقع دینے کے لیے انہیں دوبارہ اسلام لانے اور امن سے رہنے کی دعوت دی۔ عرب کے ہر حصے میں انہوں نے متعدد خطوط روانہ کیے جن میں اللہ کی حمد و ثنا کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور ان کے بشیر و نذیر ہونے کا ذکر کیا اور بتایا کہ جب وہ کام پورا ہو گیا جس کے لیے آپ دنیا میں تشریف لائے تھے تو اللہ نے آپ کو وفات دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ان خطوط میں یہ آیات بھی درج کیں۔
انک میت وانھم میتون
(اے رسول! تمہیں بھی وفات دی جانے والی ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی)
وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد افئن مت فھم الخالدون
(اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے مجھ سے پہلے کسی شخص کو ہمیشہ کی زندگی سے نہیں نوازا یہ ممکن ہے کہ تو وفات پا جائے اور دوسرے لوگ زندہ رہیں؟)
وما محمد الارسول قد خلت من قبلہ الرسل افئن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیئا وسیجزی اللہ الشاکرین
(محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔ اگر دوسرے رسولوں کی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی وفات پا جائیں یا شہید کر دئیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو اپنی ایڑیوں کے بل پھرے گا تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا اور عنقریب اللہ شکر گزار بندوں کو جزائے خیر دے گا)

ان آیات کے درج کرنے سے ابوبکرؓ کا مقصد ان لوگوں کا فتنہ فرو کرنا تھا جو یہ کہہ رہے تھے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہوتے تو کبھی وفات نہ پاتے۔
ان آیات کے علاوہ آپ نے لکھا:
مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے بعض لوگ مسلمان ہونے اور اسلام کے احکام پر عمل کرنے کے بعد جہالت اور شیطان کے بہاکنے کے باعث دین حق سے پھر گئے ہیں۔ میں تمہاری جانب مہاجرین، انصار اور تابعین کا لشکر بھیج رہا ہوں۔ میں نے اسے حکم دے دیا ہے کہ جب تک وہ تمہارے سامنے اسلام کا پیغام نہ پہنچا دے جنگ نہ کرے۔ پس جو شخص یہ دعوت قبول کرے گا، اسلام کا اقرار کر کے تمام مخالفانہ سرگرمیوں سے باز آ جائے گا اور نیک کام کرے گا اس کی جان بخشی کر دی جائے گی، لیکن جو شخص انکار کرے گا اور فساد پر آمادہ ہو گا اس سے جنگ کی جائے گی اور وہ اللہ کی تقدیر کو اپنے اوپر نافذ ہونے سے روک نہ سکے گا۔ ایسے لوگوں کو آگ میں جلایا جائے گا اور بری طرح قتل کیا جائے گا۔ ان کی عورتیں اور بچے قیدی بنا لیے جائیں گے۔ کسی شخص سے اسلام کے سوا کچھ قبول نہ کیا جائے گا ان باتوں پر غور کرنے کے بعد جو شخص ایمان لے آئے گا تو یہ ایمان اس کے لیے بہتر ہو گا، لیکن جو شخص بدستور حالت ارتداد پر قائم رہے گا وہ اللہ کو ہرگز عاجز نہ کر سکے گا۔ میں نے قاصد کو حکم دے دیا ہے کہ وہ میرا یہ خط مجمع عام میں پڑھ کر سنا دے۔ اسلام لانے کی علامت اذان ہو گی۔
اسی لیے جب مسلمان مرتدین کی بستیوں کے قریب پہنچ کر اذان دیتے اور اس کے جواب میں بستی کی جانب سے بھی اذان کی آواز سنائی دیتی تو مسلمان ان سے کوئی تعرض نہ کرتے لیکن اگر اذان کی آواز نہ آتی تو ایک بار پھر اتمام حجت کرنے کے بعد ان سے جنگ شروع کر دیتے۔

ابوبکرؓ نے قاصدوں کے ہاتھ یہ خطوط عرب کے گوشے گوشے میں بھیج دئیے۔ وہ چاہتے تھے کہ اس طرح متردد لوگوں کو غور و فکر کی مہلت مل جائے کیونکہ لوگ محض اس خدشے کے باعث مرتدین کے ساتھ ہو گئے تھے کہ اگر وہ اسلام پر قائم رہے تو انہیں مرتدین کے ہاتھوں سخت مظالم برداشت کرنے پڑیں گے۔ لیکن اب کہ انہوں نے اپنے آپ کو دو قوتوں کے درمیان گھرا ہوا دیکھا تو دوبارہ اسلام لانے کا اعلان کر دیا یا کم از کم مرتدین کے سرداروں کی حمایت سے دست کشی اختیار کر لی۔ اس وجہ سے ان کی جانیں بچ گئیں۔
یہ خطوط سن کر کثیر التعداد مرتدین کی ہمتیں بھی پشت ہو گئیں اور انہوں نے مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کا خیال چھوڑ دیا۔ غرض ابوبکرؓ کی اس پالیسی سے مسلمانوں کو زبردست فائدہ پہنچا۔ پھر بھی اس پالیسی سے کسی کمزوری کا اظہار مطلق نہ ہوتا تھا۔ ابوبکرؓ کا منشا یہ نہ تھا کہ پہلے تو مرتدین کوبہلا پھسلا کر اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کریں لیکن اس پر بھی اگر وہ باز نہ آئیں تو مصالحت کی کوئی اور راہ اختیار کریں۔ اس کے برعکس انہوں نے اپنے خطوط کا لفظ لفظ نہایت سنجیدگی سے تحریر کیا تھا۔ جو دھمکیاں خطوط میں دی گئی تھیں وہ خالی خولی نہ تھیں بلکہ وہ انہیں لباس عمل پہنانے کا تہیہ کر چکے تھے۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں لکھ دیا امرائے عساکر کو حکم دے دیا گیا ہے کہ وہ پہلے مرتد لوگوں کو دوبارہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں اگر وہ اسے قبول کر لیں تو ان سے در گزر کریں لیکن انکار کی صورت میں ان سے جنگ کریں اور اس وقت تک جنگ کریں کہ وہ اسلام لانے کا اقرار کر لیں، اسلام کا اقرار کر لینے کے بعد وہ انہیں ان حقوق سے آگاہ کریں جو ان پر عائد ہوتے ہیں اور ان حقوق سے بھی باخبر کریں جو حکومت کے ذمے عائد ہوتے ہیں پھر ان سے جو لینا ہو وہ لیں اور انہیں جو دینا وہ دیں۔ انہیں مہلت قطعا نہ دیں۔ جو شخص یہ دعوت قبول کر لے اس پر کسی شخص کو دست دراز کرنے کا حق نہیں ۔ اگر وہ اپنے دل میں ان باتوں سے مختلف باتیں چھپائے جو اس نے اپنی زبان سے ادا کی ہیں تو اس کا حساب لینا صرف اللہ کا کام ہے۔ لیکن جو شخص قبول دعوت سے انکار کر دے تو اس سے جہاں کہیں وہ ہو، جنگ کی جائے اور اسے قتل کیا جائے۔ اس سے اسلام کے سوا کوئی چیز قبول نہ کی جائے۔ قتل کرنے کے لیے تلوار اور آگ دونوں استعمال کی جائیں۔
بہترین سیاست کا کرشمہ:
ابوبکرؓ نے اس موقع پر جو پالیسی اختیار کی وہ بہترین سیاست کا کرشمہ تھی۔ بعض لوگ اس امر پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ ابوبکرؓ نے نہایت نرم دل ہونے کے باوجود اس قدر سخت رویہ کیوں اختیار کیا؟ لیکن اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ ابوبکرؓ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کامل ایمان تھا اس کے باعث انہیں دین کے معاملے میں نرمی برتنے کا کبھی خیال بھی نہ آیا۔ یہ درست ہے کہ نرم دل لوگ سختی اور تندہی کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن اگر کسی جانب سے ان کے عقائد پر زد پڑے تو ان کی سختی کی انتہا نہیں رہتی۔ انسانی فطرت میں ایک خاص حد تک سختی اور نرمی کا مادہ رکھا گیا ہے مگر بعض اوقات جب معاملات اس مقرر حد سے بڑھ جائیں تو اس کا رد عمل بالکل الٹ ہوتا ہے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی طبائع پر سختی غالب ہوتی ہے، انہیں دیکھ کر قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کبھی نرمی بھی برت سکتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر نرمی نے پوری طرح قابو پا لیا ہوتا ہے اور انہیں دیکھ کر یہ گمان بھی نہیں ہو سکتا کہ یہ کبھی سختی پر بھی اتر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس قسم کے نظارے اکثر دیکھنے میں آتے ہیں کہ جن لوگوں سے سختی کی توقع نہیں کی جا سکتی وہ انتہائی سختی پر اتر آگے ہیں اور جن سے نرمی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ وہ انتہائی نرمی برتنے لگتے ہیں۔ وجہ وہی ہے جو پہلے بیان کی جا چکی ہے کہ سختی اور نرمی دونوں کی حدود مقرر ہیں۔ بعض واقعات کے نتیجے میں یہ حدود ٹوٹ جاتی ہیں تو ان کا رد عمل بھی اتنا ہی شدید ہوتا ہے۔
کیا کوئی شخص خیال کر سکتا تھا کہ اسامہ کو شام بھیجتے وقت ابوبکرؓ وہ رویہ اختیار کریں گے جو اکابر مہاجرین اور انصار کی رائے کے بالکل خلاف تھا؟ یا منکرین زکوٰۃ کے مقابلے میں اس قدر سختی برتیں گے کہ اسلامی لشکر کے مدینہ سے غیر حاضر ہونے کے باوجود چند آدمی لے کر ان کے مقابلے کو نکل آئیں گے؟ انہی واقعات پر بس نہیں بلکہ بعد کے واقعات نے بھی بتا دیا کہ ابوبکرؓ جن کی سرشت میں نرم دلی کوٹ کوٹ کر بھری تھی، مخالفین کے مقابلے میں نہایت سخت دل واقع ہوئے۔ اس کی وجہ جیسا کہ بیان کی جا چکی ہے یہی ہے کہ ابوبکرؓ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ایمان تھا اور انہیں وثوق تھا کہ انہوں نے جو چیز قبول کی ہے وہی حق ہے۔ اس لیے جب بعض لوگ اس چیز کے مقابلے کے لیے کھڑے تو ان سے مطلق صبر نہ ہو سکا اور وہ پورے عزم اور عدیم النظیر ہمت سے دین میں رخنہ اندازی کرنے والے لوگوں کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔ ابوبکرؓ نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ اس وقت تک خاموش نہ بیٹھیں گے جب تک منکرین زکوٰۃ اور مرتدین کو حق کی طرف نہ لے آئیں یا ان کا قلع قمع نہ کر لیں اور اگر اس غرض کے لیے انہیں تنہا بھی لڑنا پڑا تو اس سے بھی دریغ نہ کریں گے۔
جنگ ہائے ارتداد کی اہمیت:
مرتدین سے جو جنگیں پیش آئیں ان کا شمار زمانہ اسلام کی فیصلہ کن جنگوں میں ہوتا ہے۔ اگر ان جنگوں میں مسلمان فتح یاب نہ ہوتے تو تھوڑے ہی عرصے میں عرب دوبارہ اسی پرانی جاہلیت کا شکار ہو جاتے جسے فنا کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ لیکن اللہ نے مقدر کر دیا تھا کہ اس کا دین غالب رہے گا۔ اس غرض سے اس نے ابوبکرؓ کو چنا۔ انہوں نے انتہائی پامردی سے تمام دشمنان اسلام کا مقابلہ کر کے انہیں دوبارہ حلقہ بگوش اسلام ہونے پر مجبور کر دیا۔ پوری تاریخ اسلام میں کہیں بھی ایسی نظیر نہیں ملتی جہاں ایسے محکم ایمان کا مظاہرہ کیا گیا ہو جیسا ابوبکرؓ نے کیا اور عزم و استقلال کا ایسا ثبوت دیا گیا ہو جیسا ابوبکرؓ نے دیا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔