Saturday, 18 June 2016

مدینہ میں قیام


مدینہ میں ان کا قیام شہر کے نواح میں مقام سخ پر خارجہ بن زید کے ہاں تھا اور جو قبیلہ خزرج کی شاخ بنو حارث سے تعلق رکھتے تھے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات کا سلسلہ قائم کر دیا تو ابوبکرؓ اور خارجہ کو بھائی بھائی بنایا۔ جب ابوبکرؓ کے اہل و عیال مکہ سے مدینہ پہنچ گئے تو انہوںنے ان سے مل کر روزی کے وسائل تلاش کرنے شروع کر دیے ۔ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے رشتہ داروں کی طرح ان کے رشتہ دار بھی انصار کی زمینوں پر ان کے مالکوں سے مل کرکام کرنے لگے جن میں خارجہ بن زید بھی شامل تھے ۔ خارجہ کے ساتھ ان کے تعلقات اس حد تک بڑھ گئے کہ انہوںںے اپنی بیٹی حبیبہ کو ان کے عقد میں دے دیا۔ حبیبہ کے بطن سے ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ ابوبکرؓ کی وفات کے وقت حبیبہ حالت حمل میں تھیں۔
ابوبکرؓ ان کے اہل و عیال اور ان کے ساتھ مقام سخ میں خارجہ بن زید کے ہاں نہ ٹھہرے بلکہ ام رومان ان کی بیٹی عائشہ اور ابوبکرؓ کے تمام لڑکے مدینہ میں حضرت ابوایوب انصاری کے مکان کے قریب مقیم تھے۔ ابوبکرؓ سخ سے روازانہ واہاں آیا کرتے تھے البتہ ان کا مستقل قیام اپنی نئی بیوی کے ساتھ سخ ہی میں تھا۔
ہجرت کے چند رو ز بعد وہ بخار میں مبتلا ہو گئے صرف وہی نہیں بلکہ آب و ہوا کی ناموافقت کے باعث اکثر مہاجرین بخار سے بیمار ہو گئے تھے مکہ کی آب و ہوا صحرا میں واقع ہونے کے باعث خشک تھی۔ اس کے مقابلے میں مدینہ کی آب و ہوا مرطوب تھی۔ کیونکہ وہ بارانی علاقہ تھا اور وہاں کھیتی باڑی ہوتی تھی۔
ابوبکرؓ نہایت نرم مزاج انسان تھے لیکن جب وہ یہود اور منافقین کی زبانوں سے دین خدا کے متعلق تمسخر آمیز باتیں سنتے تھے تو ان کے غصے کی انتہا نہ رہتی تھی۔ مدینہ تشریف لانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور یہود کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت یہود اور مسلمانوں دونوں کو اپنے اپنے دین کی تبلیغ و اشاعت اور اپنے اپنے رسوم و رواج پر عمل کرنے کی آزادی حاصل تھی۔ یہود کا شروع میں یہ خیال تھا کہ وہ مہاجرین کو اپنے ڈھب پر لائیں کر انہیں مدینہ کے قبیلوں اوس اور خزرج کے خلاف استعمال کریں گے ۔ لیکن چند ہی روز میں انہیں یہ پتا چل گیا کہ ایسا ہونا ناممکن ہے اور مہاجرین اور انصار مدینہ میں ایسا تعلق قائم ہو چکا ہے کہ جو کسی صورت میں ٹوٹ نہی سکتا۔ اس وقت انہوں نے اپنی پہل روش بد ل کر مسلمانوں کی مخالفت میں کمر باندھی اوراسلام کے متعلق تمسخر اور استہزاء کی باتیں کرنی شروع کیں۔ ایک دن کاواقعہ ہے کہ چند یہودی اپنے ایک عالم فخاص کے گھر جمع ہوئے اتفاق سے اسی وقت حضرت ابوبکرؓ بھی اسی طرف آ نکلے۔ انہوں نے یہودیوں کے اجتماع کو غنیمت جانتے ہوئے انہیں اسلام کی تبلیغ کرنی چاہی اورفخا ص سے کہنے لگے:
’’اے فخاص! اللہ سے ڈرو اور اسلام لے آئو۔ اللہ کی قسم! تم جانتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اسی کی جانب تمہارے پاس وہ حق لے کر آئے ہیں جسے تم توریت میں لکھا ہوا پاتے ہو۔‘‘
یہ سن کر فخاص کے لبوں پر تمسخڑ آمیز مسکراہٹ نمودار ہوئی ار وہ کہنے لگا:
’’خدا کی قسم اے ابوبکرؓ ہمیں خدا سے کسی چیز کی حاجت نہیں خود اسے ہماری حاجت ہے۔ ہم اس کی طرف نہیں جھکے بلکہ وہ ہماری طرف جھکنے پر مجبور ہے۔ ہم اس کی مدد سے بے پروا ہیں لیکن وہ ہماری امداد سے مستغنی نہیں۔ اگر وہ ہماری امداد سے مستغنی ہوتاتو کبھی ہمارے مال ہم سے بطور قرض نہ مانگتا جس طرح تمہارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیال ہے۔ اللہ تمہیں سود لینے سے منع کرتاہے لیکن خود ہمیں سود دیتاہے اگر وہ ہم سے مستغنی ہوتا تو ہمیں کیوں سود دیتا؟‘‘
اس ناپاک گفتگو سے فخاص کامقصد دراصل اس آیت پر چوٹ کرنا تھا کہ جس میں اللہ فرماتا ہے کہ
من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضا عفہ لہ اضعافا کثیرۃ
’’(کون ہے جو اللہ کو قرض دے‘ اس کے بدلے میں اللہ اس کے مال کوکئی گنا بڑھا کر واپس کرے گا)‘‘۔
ابوبکرؓ نے فخاص کو اللہ کے اس قول اوراس کی وحی کا مذاق اڑاتے دیکھا تو وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سے اور فخاص کے اتنے زور سے تھپڑ مارا کہ اس کے حواس بجا نہ رہے اس کے بعد فرمایا:
’’اے اللہ کے دشمن ! اگر مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان معاہدہ نہ ہوتا تو اللہ کی قسم! میں تیری گردن اڑا دیتا‘‘۔
کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ابوبکرؓ نہایت رقیق القلب اوربردبار ہونے کے باوجود اس موقع پر جوش میں آ گئے اور حالانکہ آپ کی عمر بھی پچاس سے متجاوز کرچکی تھی اور اس مرحلے پر بالعموم انسان میں جوش و خروش باقی نہیں رہتا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ غیر ت ایمانی کا مظاہرہ تھا اور اس بات کا ثبوت کہ آپ اللہ کی آیات اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر استہزاء کرنے کو کسی صورت میں برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
اسی قسم کی ایک اور مثال ہمیں ابوبکرؓ کی زندگی میں نظر آتی ہے۔ یہ واقعہ ہجرت سے دس سال قبل رونما ہوا تھا جب ایرانیوں اور رومیوں کی جنگ کے دوران میں ایرانی رومیوں پر غالب آ گئے تھے۔ چونکہ ایرانی مجوسی تھے اور رومی اہل کتاب اس لیے مسلمانوں کو اہل کتاب کے مقابلے میں مشرکوں کے غالب آ جانے سے فطرتاً رنج پہنچا تھا۔ ان کی عین خواہش تھی کہ رومی فتح یاب ہوں کیونکہ وہ ان کی طرح اہل کتاب تھے۔ ایک مشرک نے ابوبکرؓ سے اس کا اظہار کیا اوراپنے ہم مذہب وگوں کے فتحیاب ہونے پر خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔ یہ سن کر ابوبکرؓ کو سخت طیش آیا۔ اسی زمانے میں یہ آیات نازل ہوئیں۔
الم غلبت الروم فی ادنی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون فی بضع سنین
(اگرچہ رومی ایرانیوں کے ہاتھو مغلوب ہوگئے ہیں لیکن چند ہی سال میں وہ پھر غالب آجائیں گے)
ابوبکرؓ نے اس پیشنگوئی کی بنا پر ا س مشرک سے شرط لگائی کہ ایک سال کے اندر اندر رومی ایرانیوں پر غالب آ جائیں گے ۔ (بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادپرانہوں نے یہ مدت نو سال متعین کر دی) اور اگر ایسا نہ ہوا تو وہ ااسے دس اونٹ دیں گے۔
ان واقعات سے ظاہر ہوتاہے کہ ابوبکرؓ جیسے حلیم الطبع اورنرم مزاج انسان کا غصہ صرف اس وقت بھڑکتا تھا جب کہ عقیدے اور ایمان کا سوال درپیش ہوتا تھا۔
جب سے ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کرکے آپ کے دین میں داخل ہوئے اسی وقت سے ان کی رگ رگ میں ایمان صادق رچ گیاتھا۔ ان کے تما م اعمال و افعال میں اسی ایمان صادق کارنگ نمایاں تھا۔ خا ندان خواہشات غرض دنیا کی کوئی بھی چیز جو لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتی تھی ان کی نظر میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں بالکل ہیچ تھی۔ ان کاجس دل و دماغ اوران کی روح خالص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تھی۔ یہی جذبہ ایمانی تھا جس نے انہیں روحانیت کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچا کر صدیقین کے زمر ے میں شامل کر دیا تھا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔