Saturday, 18 June 2016

یمن میں قیامِ امن کی کوششیں


عکرمہ ساحل کے ساتھ ساتھ مہرہ سے حضرت موت اور کندہ کی جانب بڑھے اس سفر میں انہیں کسی خاص دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ کیونکہ حضرت موت مہرہ سے ملحق ہے البتہ مہاجر بن ابی امیہ کو وہاں تک پہنچنے میں سخت مشکلات پیش آئیں کیونکہ انہیں شمالی جانب سے یمن پہنچنا تھا۔ عکرمہ مہاجر سے ملنے کی خاطر تیزی سے سفر کرتے یمن پہنچے۔ یمن کی بغاوت کو مدت دراز گزر چکی تھی اور فتنے کے جراثیم نے سارا علاقہ سخت مسموم کر رکھا تھا۔ اس لیے اب کہ دوسرے علاقوں سے بغاوت اور فتنہ و فساد کے شعلے سرد کیے جا چکے تھے، ضروری تھا کہ یمن میں بھی امن و امان قائم کرنے کی سعی بلیغ کی جاتی تاکہ نہ صرف اس علاقے کی جانب سے سلطنت اسلامیہ کو اطمینان نصیب ہوتا بلکہ کندہ اور حضر موت کے بقیہ مرتدین کے استیصال میں بھی آسانی پیدا کی جا سکتی۔
یمن میں بغاوت کے اسباب:
صفحات ما قبل میں اسود عنسی کی بغاوت کا حال بالتفصیل بیان کیا گیا تھا کہ کس طرح ا س نے نبوت کا دعویٰ کر کے صنعاء کی طرف کوچ کیا، کس طرح انتہائی سرعت سے مکہ اور طائف تک اس کا اثر جا پہنچا اور کس طرح اس کی بیوی آزاد کی سازش سے جو قبل ازیں صنعاء کے بادشاہ شہر بن بازان کی زوجیت میں تھی، عنسی کیفر کردار کو پہنچا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عنسی کے قتل کی خبر مدینہ میں عین اس روز پہنچی جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تھا۔ ابوبکرؓ نے فیروز کو یمن کا حاکم مقرر فرمایا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر وفات سن کر بغاوت کے شعلے ایک بار پھر زور و شور سے بھڑک اٹھے۔ مزید برآں کئی عوامل اس قسم کے پیدا ہو گئے جنہوں نے اس آگ کو بھڑکانے میں اور زیادہ مدد دی۔
شورش یمن کا پہلا سبب:
بغاوت کی آگ کو زیادہ بھڑکانے کا پہلا سبب یہ بنا کہ اس علاقے میں ایک متحدہ حکومت قائم کرنے کے بجائے اسے مختلف عمال کے درمیان تقسیم کر دیا گیا۔ چنانچہ بازاران کی وفات کے بعد یمن کی حکومت میں اس کے بیٹے شہر کے علاوہ دیگر عمال کو بھی شریک کر لیا گیا۔ شہر کو صنعاء کی ولدیت سپرد کی گئی اور دیگر عمال کو نجران اور ہمذان وغیرہ کی۔ اس صورت حال نے اسود عنسی کو بغاوت کرنے پر مزید جرات دلائی۔ صرف یمن ہی کا یہ حال نہ تھا بلکہ یمن کے شمالی علاقے میں بھی جو کہ اور طائف تک پھیلتا چلا گیا تھا، سلطنت کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے اسے مختلف عمال کے زیر حکومت دے دیا گیا، چنانچہ تہامہ کا وہ علاقہ جو ساحل بحر کے متوازی واقع تھا ایک حاکم کے ماتحت تھا اور انرونی علاقہ دوسرے عمال کے ماتحت۔ اسود عنسی کا فتنہ فرو ہو جانے کے بعد ان عمال میں سے ہر ایک نے یہی چاہا کہ وہ اپنی جگہ واپس جا کر عنان حکومت ہاتھ میں سنبھالے اور اگر اس مقصد کے لیے لڑنا بھی پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے۔
دوسری طرف اسود عنسی کے مددگاروں کو یہ صورت حال گوارا نہ تھی کہ جو علاقہ عنسی نے سخت کوشش اور جدوجہد کے بعد قبضے میں کیا تھا وہ دوبارہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں چلا جائے۔ اس لیے انہوں نے بھی مسلمان حکام کو دوبارہ اپنے اپنے علاقوں پر مسلط ہونے سے روکنے اور اسود عنسی کی جگہ لینے کے لیے کارروائی شروع کر دی۔
تیسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب میں ارتداد کا فتنہ وبا کی طرح پھوٹ پڑا تھا اور ہر قبیلے کی یہ کوشش تھی کہ وہ مسلمانوں کی اطاعت سے آزاد ہو کر اور اسلامی حکومت کا جو ا گردن سے اتار کر خود مختاری حاصل کر لے۔
ان تمام اسباب نے مل کر یمن اور اس کے ملحقہ علاقے میں، جو اسود عنسی اور اس کے مددگاروں کی سرگرمیوں کا مرکز تھا، شدید ہیجان و اضطراب پیدا کر دیا۔
اسود کے بعد مددگاروں کی سرگرمیاں:
اسود عنسی کی موت کے بعد بھی اس کے مددگاروں کا جوش و خروش ٹھنڈا نہ ہو سکا تھا اور انہوں نے نجران اور صنعا کے علاقے میں سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دی تھیں۔ عمرو بن معدی کرب نے جو شاعر ہونے کے علاوہ اعلیٰ درجے کا بہادر بھی تھا، جس کی شجاعت اور جواں مردی کی دھاک سارے عرب پر بیٹھی ہوئی تھی اور جس نے عنسی سے مل کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا تھا۔ یہ موقع غنیمت جان کر مسلمانوں کے خلاف علم شورش بلند کر دیا اور قیس بن عبد یغوث کو ساتھ ملا کر فیروز کو یمن سے نکال دیا، ساتھ ہی داذویہ کو بھی ملک بدر کر دیا۔ اس طرح یمن میں دوبارہ فتنہ برپا ہو گیا اور اس علاقے میں امن کی راہیں مسدود ہو گئیں۔
اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے سب سے ضروری امر یہ تھا کہ مدینہ اور یمن کے درمیانی راستے میں امن و امان قائم کیا جائے۔ اس راستے پر، جو ساحل بحر کے ساتھ ساتھ چلا گیا تھا، عک اور اشعریین کے بعض قبائل آباد تھے۔ انہوں نے شورش پسندوں سے مل کر مسلمانوں کے لیے یہ راستہ مسدود کر دیا۔ طائف اس راستے کے بالکل قریب واقع تھا۔ وہاں کے حاکم طاہر بن ابی ہالہ نے تمام واقعات سے ابوبکرؓ کو اطلاع دی اور خود ایک لشکر جرار لے کر ان لوگوں کے مقابلے کے لیے روانہ ہو گیا۔ بڑی سخت لڑائی ہوئی اور جس میں مفسدین کو شکست فاش اٹھانی پڑی۔ ان کے بے شمار آدمی قتل ہوئے۔ مورخین نے یہاں تک لکھا ہے کہ ان کی لاشوں سے سارا راستہ پٹ گیا اور آمد و رفت معطل ہو کر رہ گئی۔ ابوبکرؓ فتح کی خوش خبری پہنچنے سے پہلے ہی طاہر کو خط لکھ چکے تھے۔ جس میں اسے ڈھارس دیتے ہوئے ثابت قدمی سے مقابلہ کرنے کی تلقین اور ہدایت کی گئی تھی کہ جب تک اس راستے میں، جس پر خبیث لوگ قابض ہیں، امن و امان قائم نہ ہو جائے اس وقت تک وہ اعلاب (اعلاب: مکہ اور ساحل بحر کے درمیان ایک مقام ہے جہاں بنوعک بن عدنان آباد تھے۔)میں مقیم رہے۔ اس روز سے قبیلہ عک کی فوجوں کا نام جموع الاخابث اور راستے کا نام طریق الاخابث پڑ گیا۔ بعد میں لمبے عرصے تک یہ نام عربوں میں رائج رہے۔
شورش و اضطراب کا دوسرا سبب:
یمن میں فتنے کے بھڑکنے اور اس میں شدت پیدا ہونے کا دوسرا بڑا سبب قومیت کا اختلاف تھا۔ شہر کے قتل ہونے کے بعد ابوبکرؓ نے صنعاء میں فیروز کو حاکم مقرر فرمایا تھا۔ اسود کے قتل کی سازش میں فیروز کے ساتھ شہر کے دو وزیر، داذویہ اور حشبنس اور سپہ سالار قیس بن قیس بن مکشوح شریک تھے۔ فیروز، دادویہ اود حشبنس فارسی الاصل تھے۔ لیکن قیس عربی النسل اور یمن کے قبیلہ حمیر میں سے تھا۔ اس لیے جب ابوبکرؓ نے فیروز کو حاکم مقرر کیا تو قیس کو یہ بات بری لگی اور اس نے فیروز کے قتل کا مصمم ارادہ کر لیا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔