Saturday, 18 June 2016
اسامہ کا لشکر
Posted by
Islamichistory
عرب قبائل کی بغاوت کے نتائج و عواقب سے نہ تو ابوبکرؓ بے خبر تھے اور نہ انصار و مہاجرین کا کوئی فرد۔ اب ان کے سامنے ایک ہی سوال تھا۔ آیا اس موقع پر سب سے پہلے ارتداد کے فتنے کو کچلا جائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تعمیل میں سرحدوں کی حفاظت کے لیے اسامہ کے لشکر کو شام روانہ کر دیا جائے؟ اگرچہ وہ وقت مسلمانوں کے لیے نازک تھا لیکن ابوبکرؓ، نے تمام خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئے بیعت کے بعد پہلا حکم یہ صادر فرمایاکہ اسامہ کا لشکر شام روانہ ہو جائے۔
اسامہ کے لشکر میں مہاجرین اور انصار کے معزز ترین افراد شامل تھے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی سرحد پر رومیوں سے جنگ کرنے کے لیے تیار کیا تھا۔ جنگ موتہ اور غزوہ تبوک کے بعد آپ کو خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں اسلام اور مسیحیت کے بڑھتے ہوئے اختلاف اور یہود کی فتنہ انگیزی کے باعث اہل روم عرب پر حملہ نہ کر دیں۔ جنگ موتہ اور غزوہ تبوک میں جو واقعات پیش آ چکے تھے ان سے آپ کے ان خدشات کو مزید تقویت پہنچی۔ جنگ موتہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ تینوں قائدین: زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ کو جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ بالآخر خالد بن ولید نے مسلمانوں کے لشکر کو رومیوں کے نرغے سے نکالا اور انہیں بحفاظت مدینہ لے آئے۔ گو انہیں جنگ میں فتح حاصل نہ ہو سکی مگر اتنی قلیل التعداد فوج کو اتنے عظیم الشان لشکر کے محاصرے سے بحفاظت نکال لانا بجائے خود نہایت شجاعانہ کارنامہ تھا۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس مسلمانوں کو ہمراہ لے کر جانب تبوک روانہ ہوئے لیکن دشمن کو میدان میں نکل کر مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی جرات نہ ہوئی اور اس نے شام کے اندرونی علاقوں میں گھس کر مسلمانوں کے حملے سے محفوظ ہو جانے میں اپنی خیریت سمجھی۔
ان غزوات کے باعث مسلمانوں کے متعلق رومیوں کے ارادے بہت خطرناک ہو گئے اور انہوں نے عرب کی سرحد پر پیش قدمی کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ کو بطور پیش بندی شام روانہ ہونے کا حکم دیا تھا۔
اسامہ بیس برس کے نوجوان تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس لیے سردار لشکر مقرر فرمایا تھا کہ ایک طرف تو نوجوانوں میں خدمت دین کے لیے آگے آنے اور اہم ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کا شوق پیدا ہو، دوسری طرف اسامہ اپنے والد زید بن حارثہ کا انتقام لے سکیں جنہیں رومیوں نے جنگ موتہ میں شہید کر دیا تھا۔ آپ نے اسامہ کو حکم دیا کہ وہ فلسطین میں بلقاء اور داروم کی حدود میں پہنچ کر دشمن پر حملہ کریں اور اس ہوشیاری سے یہ کام انجام دیں کہ جب تک وہ دشمن کے سر پر نہ پہنچ جائیں اسے مسلمانوں کی آمد کا پتہ نہ لگے۔ انہیں یہ حکم بھی دیا گیا تھا کہ فتح کے بعد فوراً مدینہ واپس آ جائیں۔
اسامہؓ بھی دلیری اور بہادری میں کسی سے کم نہ تھے اور یہ صفات عہد طفلی ہی سے ان میں نمایاں تھیں۔ جنگ احد کے موقع پر وہ بچے تھے اور بچوں کو لشکر کے ساتھ جانے کی اجازت نہ تھی۔ لیکن جب اسلامی لشکر مدینہ سے روانہ ہوا تو اسامہ راستے میں اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ لیکن صغر سنی کی وجہ سے انہیں واپس کر دیا گیا۔ جنگ حنین میں انہوں نے بہادری کے خوب جوہر دکھائے اور ثابت قدمی کا بے نظیر مظاہرہ کیا۔
ان اوصاف کے باوجود بعض لوگوں کو اسامہ کی امارت پر اعتراض تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اسامہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اوراسامہ کی بہادری مسلم لیکن ایسے لشکر کی امارت جس میں ابوبکرؓ، عمرؓ اور دوسرے جلیل القدر صحابہ شامل ہیں، ایک بچے کو سپرد کرنا مناسب نہیں۔
ان چہ میگوئیوں کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عین مرض الموت میں مل گئی۔ اس وقت اسامہ کا لشکر مقام جرف میں مقیم تھا اور کوچ کی تیاریوں میں مشغول تھا۔ آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو حکم دیا کہ وہ آپ کو نہلائیں۔ چنانچہ پانی کی سات مشکیں آپ پر ڈالی گئیں۔ جن سے آپ کا بخار اتر گیا۔ اس وقت آپ مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر چڑھ کر حمد و ثنا اور اصحاب احد کے لیے دعا کرنے کے بعد فرمایا:
اے لوگو! اسامہ کے لشکر کو جانے دو۔ تم نے اس کی امارت پر اعتراض کیا ہے اور اس سے پہلے تم اس کے والد کی امارت پر بھی اعتراض کر چکے ہو۔ اس کے باوجود امارت کے قابل ہے اور اس کا باپ بھی امارت کے لائق تھا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں اضافہ ہو گیا تو اسامہ کا لشکر جرف ہی میں رک گیا۔ اسامہ بیان کرتے ہیں:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بڑھ گئی تو میں اور میرے چند ساتھی مدینہ آئے۔ میں آپ کے پاس گیا۔ آپ کو شدید ضعف تھا اور بول نہ سکتے تھے۔ آپ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے اور مجھ پر رکھ دیتے ۔ مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ میرے لیے دعا فرما رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے روز علی الصباح اسامہؓ نے آپ سے کوچ کی اجازت مانگی۔ آپ نے اجازت دے دی۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد آپ کی وفات ہو گئی اور اسامہؓ اپنے لشکر کے ہمراہ جرف سے مدینہ آ گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں اسامہؓ اہل بیت کے ساتھ شریک رہے۔ وہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام شقران آپ کے جسد اطہر پر پانی ڈالتے اور حضرت علیؓ غسل دیتے تھے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔