Saturday 18 June 2016

سقیفہ بنی سعدہ


موجودہ زمانے میں اسلوب بیان کے بعض پہلوئوں کو ماہرین سیاست نو ایجاد سمجھتے ہیں۔ منجملہ دیگر اسالیب بیان کے ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ مد مقابل سے اس طرح گفتگو کی جائے کہ اس کے جذبات کو ٹھیس بھی نہ لگے اوراسے قائل بھی کر لیا جائے۔ یہ طرز بالکل نو ایجاد سمجھا جاتاہے لیکن ابوبکرؓ نے انصار سے جس طرز پر بات کی او ر جس خوش اسلوبی سے معاملے کو سلجھایا آج کل کے ماہرین سیاست کو اس کی ہوا تک نہیں لگی۔
جب یہ تینوں مہاجرین اطمینان سے بیٹھ گئے تو انصار کی پریشانی کچھ کم ہوئی اور انہوں نے مہر سکوت توڑ کر اسی قسم کی باتیں شروع کیں کہ خلافت صرف ان کا حق ہے اور یہ حق انہیں کو ملنا چاہیے۔
حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں نے بعض باتیں سوچ رکھی تھیں جنہیں اس مجلس میں بیان کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن جب میں تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو ابوبکرؓ نے کہا :
’’ذرا ٹھہرو مجھے بات کر لینے دو۔ اس کے بعد تم بھی اپنی باتیں بیان کر دینا‘‘۔
اصل میں ابوبکرؓکو ڈر تھا کہ کہیں عمرؓ تیزی میں نہ آ جائیں کیونکہ یہ موقع تیزی اور سختی کا نہ تھا بلکہ ہنرمی اور بردباری برتنے کا تھا۔ عمرؓ اور ابوبکرؓ کی بزرگی اورا ن کی سبقت فی الاسلام کا لحاظ کرتے ہوئے بیٹھ گئے اور ابوبکرؓ تقریرکرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے حمد و ثنا کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آ پ کے لائے ہوئے پیغام کا ذکر کیا پھر فرمایا:
’’…عربوں کے لیے اپنے آبائو اجداد کا دین ترک کردینا نہایت شاق تھااور وہ ایسا کرنے کے لیے بالکل آمادہ نہ تھے اس وقت اللہ نے آپ کی قوم میں مہاجرین اولین کو آپ کی تصدیق کرنے آپ پر ایمان لانے آپ کی دلجوئی کرنے اوراپنی قوم کے مظالم کو صبر سے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ہر شخص ان کامخالف تھا ان پر ظلم و ستم توڑے جا رہے تھے۔ انہیں بدترین ایذائیں دی جاتی تھیں لیکن وہ قلت تعداد اور کثرت اعداء کے باوجو د مطلق خوفزدہ نہ ہوئے وہ اس سرزمین میں اولین اشخاص ہیں جنہیں اللہ او ر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے اور اس طرح اللہ کے حقیقی بندے بننے کی توفیق ملی۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محب اور رشتہ دار ہیں اس لیے خلافت کے وہی مستحق ہیں ۔
اورتم اے گروہ انصار! وہ لوگ ہو جن کی فضیلت دینی اور اسلا م میں سبقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ نے تمہیں اپنے دین کا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامددگار بنایا ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت تمہاری طرف کی اور آپ کی اکثر ازواج اور بیشتر صحابہ تمہیں میں سے تھے۔ مہاجرین اولین کے بعد تمہارا ہی رتبہ ہے۔ اس لیے ہم امیر ہوں گے اور تم وزیر۔ نہ تمہارے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ کیا جائے گا اور نہ تمہیں شریک کیے بغیر کوئی کام انجام دیا جائے گا‘‘۔
ابوبکرؓکے دلائل پر روشنی میں تمام لوگوں کو مطمئن ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ ان کی تمام باتیں مبنی برحق تھیں اور قرین انصاف تھیں لیکن بعض لوگوں نے مہاجرین کی امارت سرے سے ناپسند تھی ان کے دلائل سے کوئی اثر قبول نہ کیا کیونکہ ا ن لوگوں کو خدشہ تھا کہ مہاجرین ان کا حق غصب کر لیں گے اور سلطنت پر قابض ہوکر من مانی کارروائیاں کریں گے چنانچہ ان میںسے ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا:
’’ہم اللہ کے انصار اور اسلام کا لشکر ہیں اورتم اے مہاجرین ! ہم سے قلیل التعداد ہو لیکن اب تم ہمارا حق غصب کرنا اور ہمیں سلطنت سے محروم کرنا چاہتے ہو ایسا کبھی نہیں ہو سکے گا‘‘۔
یہ سن کر بھی ابوبکر ؓ کے ماتھے پر بل نہ پڑے۔ اور وہ بدستور اپنے دھیمے پن سے مجمع کو خطاب کرتے رہے۔ انہوںنے فرمایا:
’’ اے لوگو! ہم مہاجرین اولین اشخاص ہیں جو اسلام لائے۔ حسب و نسب اور عز و شرف کے لحاظ سے بھی ہم تمام عربوں سے بڑھ چڑھ کر ہیں ۔ ان تمام باتوں کے علاوہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی رشتہ دار ہونے کا فخر بھی حاصل ہے۔ ہم تم سے پہلے ایمان لائے اور قرآن میں ہمارا ذکر تمہارے ذکر سے مقدم ہے۔ اللہ فرماتا ہے :
والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان
ہم مہاجرین ہیں اور تم انصار۔ تم دین میں ہمارے بھائی غنیمت میں ہمارے شریک اوردشمنوں کے مقابلے میں ہمارے مدد گار ہو۔ باقی تم نے اپنی فضیلت کا جوذکر کیا ہے اس سے ہمیں انکارنہیں۔ تم واقعی اس کے اہل ہو اور روئے زمین پر سب سے زیادہ تعریف کے مستحق ۔ لیکن عرب اس بات کو کبھی نہ ما نیں گے کہ سلطنت قریش کے سوا کسی اور قبیلے کے ہاتھ میں رہے۔ اس لیے امارت تم ہمارے سپردکر دو اور وزارت خود سنبھال لو‘‘۔
لیکن پھر بھی مخالفت برقرار رہی تو حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے۔ وہ ا س سے پہلے حضرت ابوبکرؓ کے منع کرنے سے مجبوراً خاموش ہو رہے تھے لیکن ان سے ضبط نہیں ہو سکا اور انہوں نے کہا:
’’ایک میان میں دو تلواریں جمع نہیں ہو سکتیں۔ اللہ کی قسم! عرب تمہیں امیر بنانے پر ہرگز رضامند نہیں ہوں گے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم میں سے نہ تھے۔ ہاں اگر امارت ان لوگوں کے ہاتھ میں آئے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تھے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اگر عربوں کے کسی طبقے نے ہماری امارت اور خلافت سے انکار کیا تو اس کے خلاف ہمارے ہاتھ میں دلائل ظاہرہ اور براہین قاطعہ ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی اور امارت کے بارے میں کون شخص ہم سے جھگڑا کر سکتا ہے جب ہم آپ کے جاں نثار اور اہل عشیرہ ہیں۔ اس معاملے میں ہم سے جھگڑا کرنے والا وہی ہو سکتا ہے جو باطل کا پیروکار گناہوں سے آلودہ ہلاکت کے گڑھے میں گرنے کے لیے تیار ہو‘‘۔
اس وقت ابوعبیدہ بن جراحؓ جواب تک خاموش بیٹھے فریقین کی باتیں سن رہے تھے اس معاملے میں دخل دیے بغیر نہ رہ سکے۔ وہ اٹھے اور اہ مدینہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے انصار! تم ہی تھے جنہوں نے ا س دین کی نصرت اور حمایت کے لیے سب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کیا تھا اوراب تمہیں سب سے پہے اس کی تباہی کے درپے ہو رہے ہو‘‘۔
ابوعبیدہؓ کے اس فقرے کا قبیلہ خزرج کے ایک سردار بشیر بن سعد ابو النعمان بن بشیر پر بے حد اثر ہوا۔ وہ کھڑے ہوئے اور تقریر کی:
’’اللہ کی قسم! اگر ہمیں مشرکین سے جہاد اور دین میں سبقت اختیار کرنے کے معاملے میں مہاجرین پر فضیلت حاصل ہے لیکن ہم نے یہ سب کچھ محض اپنے رب کی رضا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اپنے نفس کی اصلاح کے لیے کیا تھا اس لیے ہمیں زیبا نہیں کہ ہم ان باتوں کی وجہ سے فخر و مباہات کا اظہار کریں اور اپنی دینی خدمت کے بدلے دنیا کا مال و منال طلب کریں۔ اللہ ہی ہمیں اس کی جزا دے گا اور اس کی جزا ہمارے لیے کافی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش میں سے تھے اور آپ کی قوم ہی اس کی سب سے زیادہ حق دار ہے۔ اللہ نہ کرے کہ ہم اس بارے میں ان سے جھگڑا کریں۔ اس لیے اے انصار! تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور مہاجرین کی مخالفت نہ کرو اور ان سے مت جھگڑو‘‘۔
بشیر بن سعد کی یہ باتیں سن کر ابوبکرؓنے انصار کی طرف نظر دوڑائی تاکہ یہ دیکھیں کہ انہوں نے کہاں تک ان کااثر قبول کیا ہے۔ انہوںنے دیکھا کہ اول آپس میں آہستہ آہستہ کچھ کہہ رہے ہیں۔ ادھر بنی خزرج کے چہروں سے بھی مترشح ہوتا تھا کہ ان کے دلوں پر بشیر کی باتوں کا بہت اثر ہوا ہے۔
یہ دیکھ کر ابوبکرؓ کو یقین ہو گیا کہ معاملہ سدھر گیا ہے اور یہی لمحات فیصلہ کن ہیں‘ انہیں ضائع نہ کرنا چاہے وہ حضر ت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے ایک کا ہاتھ پکڑ کرکھڑے ہوگئے اور فرمایا۔
’’یہ عمرؓ اور ابوعبیدہؓ بیٹھے ہیں ان میں سے جس کی بیعت چاہو کر لو‘‘۔
اس وقت شور و شغب بہت بڑھ گیا حضرت عمرؓ کی دینی فضیلت سے کسی شخص کا انکار نہ تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معتمد علیہ اور ام المومنینؓ حضرت حفصہؓ کے واالد تھے۔ لیکن ان کی سختی اور تیز مزاجی سے ہر کوئی ڈرتا تھا۔ اسی لیے ہر شخص ان کی بیعت سے پس و پیش کر رہا تھا۔ جہاں تک ابوعبیدہؓ کا تعلق تھا ان میں عمرؓ کی سی سختی نہ تھی لیکن انہیں دینی لحاظ سے حضرت عمرؓ کا سامقام و مرتبہ حاصل نہ تھا۔
اگر چندے اور یہی حالت رہتی تو اختلاف انتہائی شدت اختیار کر لیتا لیکن حضرت عمرؓ نے اسے بڑھنے نہ دیا اور بلند آوا ز سے کہا:
’’ابوبکرؓ اپنا ہاتھ بڑھائیے‘‘۔
حضرت ابوبکرؓ نے ہاتھ آگے بڑھایا اور حضرت عمرؓ نے فوراً آپ کی بیعت کر لی اور کہا:
’’ابوبکر! کیا آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم نہ دیا تھا کہ آپ مسلمانوں کو نماز پڑھائیں اس لیے آپ ہی خلیفہ اللہ ہیں۔ ہم آپ کی بیعت اس لیے کرتے ہیں کہ آپ ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب تھے‘‘۔
حضرت ابوعبیدہؓ بھی یہ کہتے ہوئے آپ کی بیعت کر لی:
’’آپ مہاجرین میں سب سے برتر ہیں۔ آپ غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غیر حاضری میں آپ ہی نماز پڑھایا کرتے تھے اس لیے آپ سے زیادہ کون شخص اس بات کا مستحق ہو سکتاہے کہ اسے خلافت کی ہام ذمہ داریاں سپرد کی جائیں‘‘۔
حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ نے بیعت کر لینے کے بعد بشیر بن سعد بھی جلدی سے آگے بڑھے اور بیعت کر لی۔اس کے بعد اوس نے آپ کی بیعت کر لی۔ ادھر خزرج اپنے سردار بشیر بن سعد کی باتوں سے مطمئن ہو چکے تھے وہ بھی آگے بڑھ کر بیعت کرنے لگے۔
سقیفہ کی بیعت میں حضرت علیؓ بن ابی طالب اور بعض کبار صحابہؓ شریک نہ ہوسکے کیونکہ انہیں واقعہ سقیفہ کی خبر نہ تھی ا س لیے وہ بھی اس بیعت میں شریک نہ تھے۔ بیعت سقیفہ کے متعلق ایک روایت میں حضرت عمرؓ کی جانب قول منسوب ہےکہ یہ بیعت بغیر کسی ارادے سے محض اتفاقاً ہو گئی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سقیفہ بنو ساعدہ میں جو کچھ ہوا اس نے اسلام کو ایک ایسے ہولنا ک فتنے سے بچا لیا جس کا انجام اللہ جانے کیا الم ناک صورت اختیار کرتا۔اور اسکے بعد وہ تسلی سے حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہوگئے۔
اس دن کے بعد پھر کبھی انصار کی طرف سے خلافت کی خواہش نہیں کی گئی۔ حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ کی بیعت ہوئی۔ ان کی وفات کے بعد تخت خلافت پر حضرت عثمانؓ اور متمکن ہوئے لیکن انصار نے خلافت کا دعویٰ نہ کیا۔ حضرت علیؓ کے عہد میں آپ کے اور حضرت معاویہؓ کے درمیان اختلاف برپا ہوا۔ جس نے بڑھتے بڑھتے جنگ کی صورت اختیار کر لی ۔ اس اختلاف کے موقع پر بھی انصار کی طرف سے خلافت کے حصول کی کوئی کوشش نہ کی گئی حالانکہ اگر وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے تو بخوبی اٹھا سکتے تھے۔ لیکن وہ ابوبکرؓ کے اس قول پر صدق دل سے ایمان لا چکے تھے کہ:
’’عرب سوا قریش کے کسی اور کی خلافت پر راضی نہ ہوں گے‘‘۔
بعد میں ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حسب ذیل وصیت کے مطابق مہاجرین کے زیر سایہ اطمینان کی زندگی بسر کرتے رہے۔
سقیفہ بنی ساعدہ میں بیعت ختم ہونے پر مسلمان مسجد نبوی میں واپس آ گئے۔ اس وقت شام ہو چکی تھی ۔ اگلے روز حضرت ابوبکرؓ مسجد میں تشریف لائے اور منبر پربیٹھ گئے ۔چنانچہ اس کے بعد عام بیعت ہوئی جب سقیفہ بنی ساعدہ کی بیعت میں صرف خاص خاص لوگ شریک تھے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔