Sunday 18 October 2015

غزوہ وادی القری


رسول اللہﷺ خیبر سے فارغ ہوئے تو وادی القریٰ تشریف لے گئے۔ وہاں بھی یہود کی ایک جماعت تھی۔ اور ان کے ساتھ عرب کی ایک جماعت بھی شامل ہوگئی تھی۔جب مسلمان وہاں اترے تو یہود نے تیروں سے استقبال کیا۔ وہ پہلے سے صف بندی کیے ہوئے تھے۔ رسول اللہﷺ کا ایک غلام مارا گیا۔ لوگوں نے کہا: اس کے لیے جنت مبارک ہو۔ نبیﷺ نے فرمایا : ہرگز نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس نے جنگ خیبر میں مالِ غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے جو چادر چرائی تھی وہ آگ بن کر اس پر بھڑک رہی ہے۔ لوگوں نے نبیﷺ کا یہ ارشاد سنا تو ایک آدمی ایک تسمہ یا دو تسمہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نبیﷺ نے فرمایا : یہ ایک تسمہ یادوتسمہ آگ کا ہے۔( صحیح بخاری ۲/۶۰۸)
اس کے بعد نبیﷺ نے جنگ کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ترتیب اور صف بندی کی۔ پورے لشکر کا عَلَم حضرت سعد بن عُبادہؓ کے حوالے کیا۔ ایک پرچم حُبابؓ بن مُنذر کو دیا اور تیسرا پر چم عُبادہ بن بشر کو دیا اس کے بعد آپﷺ نے یہود کو اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے قبول نہ کیا۔ اور ان کا ایک آدمی میدانِ جنگ میں اترا۔ ادھر سے حضرت زبیر بن عوامؓ نمودار ہوئے۔ اور اس کاکام تمام کردیا۔ پھر دوسرا آدمی نکلا۔ حضرت زبیرؓ نے اسے بھی قتل کردیا۔ اس کے بعد ایک اور آدمی میدان میں آیا۔ اس کے مقابلے کے لیے حضرت علی ؓ نکلے اور اسے قتل کردیا۔ اس طرح رفتہ رفتہ ان کے گیارہ آدمی مارے گئے، جب ایک آدمی مارا جاتا تو نبیﷺ باقی یہودیو ں کو اسلام کی دعوت دیتے۔
اس دن جب نماز کا وقت ہوتا تو آپﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نمازپڑھاتے اور پھر پلٹ کر یہود کے بالمقابل چلے جاتے اور انہیں اسلام ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دیتے۔ اس طرح لڑتے لڑتے شام ہوگئی۔ دوسرے دن صبح آپﷺ پھر تشریف لے گئے۔ لیکن ابھی سورج نیزہ برابر بھی بلند نہ ہوا ہوگا کہ ان کے ہاتھ میں جو کچھ تھا اسے آپﷺ کے حوالے کردیا۔ یعنی آپ نے بزورِ قوت فتح حاصل کی اور اللہ نے ان کے اموال آپﷺ کو غنیمت میں دیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بہت سارا سازوسامان ہاتھ آیا۔
رسول اللہﷺ نے وادیٔ القریٰ میں چار روز قیام فرمایا۔ اور جو مال ِ غنیمت ہاتھ آیا اسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تقسیم فرما دیا۔ البتہ زمین اور کھجور کے باغات کو یہود کے ہاتھ میں رہنے دیا۔ اوراس کے متعلق ان سے بھی (اہل ِ خیبر جیسا) معاملہ طے کر لیا۔( زاد المعاد ۲/۱۴۶ ، ۱۴۷)
تَیْمَاء:
تیماء کے یہودیوں کو جب خیبر ، فدک اور وادی القری کے باشندوں کے سپر انداز ہونے کی اطلاع ملی تو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کی محاذ آرائی کا مظاہر کرنے کے بجائے از خود آدمی بھیج کر صلح کی پیش کش کی۔ رسول اللہﷺ نے ان کی پیشکش قبول فرمالی۔ اور یہ یہود اپنے اموال کے اندر مقیم رہے۔اس کے متعلق آپ نے ایک نوشتہ بھی تحریر فرمادیا جو یہ تھا :
''یہ تحریر ہے محمد رسول اللہ کی طرف سے بنو عادیا کے لیے۔ ان کے لیے ذمہ ہے۔ اور ان پر جزیہ ہے ان پر نہ زیادتی ہوگی نہ انہیں جلاوطن کیاجائے گا۔ رات معاون ہوگی اور دن پختگی بخش ( یعنی یہ معاہدہ دائمی ہوگا ) اور یہ تحریر خالد بن سعید نے لکھی۔''(زاد المعاد ۲/۱۴۷، ابن سعد ۲/۲۷۹ )

اس کے بعد رسول اللہﷺ نے مدینہ واپسی کی راہ لی۔ خیبر کے معرکوں کی تفصیلات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ کی واپسی یا تو ( ۷ھ کے ) صفر کے اخیر میں ہوئی تھی یا پھر ربیع الاول کے مہینے میں۔

1 comments:

Anonymous نے لکھا ہے کہ

bad

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔