Monday 19 October 2015

غزوہ حنین


اس غزوہ کو غزوۂ ہوازن بھی کہتے ہیں، حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی کا نام ہے ، ذو المجاز عرب کا مشہور بازار اور عرفہ سے تین میل ہے، یہ اسی کے دامن میں ہے ، اس مقام کو او طاس بھی کہتے ہیں،
ہجرت کے آٹھویں سال مکّہ فتح ہوا تو مسلمانوں کو موقع ملا کہ مکّہ کی گلیوں اور بازاروں میں آزادی کے ساتھ گھومیں، اپنے عزیز و اقارب سے ملیں جلیں اور خانہ کعبہ کی زیارت کرسکیں، اب مکّہ میں اسلام آزادتھا، پانچ وقت حضرت بلالؓ کی روح پرور اذان کی آواز مکّہ کی فضا میں گونجتی تھی اور مسلمان صحن کعبہ میں آزادی کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے، بہت سے قبائل نے پیش قدمی کرکے اسلام قبول کرنا شروع کردیا؛لیکن بعض طاقتور اور متکبر قبائل پراس کا الٹا اثر ہوا.
ان میں ہوازن اور ثقیف سر فہرست تھے۔ ان کے ساتھ مُضَر ، جُشَم اور سعد بن بکر کے قبائل اور بنوہلال کے کچھ لوگ بھی شامل ہوگئے تھے۔ ان سب قبیلوں کا تعلق قیسِ عیلان سے تھا۔ انہیں یہ بات اپنی خودی اور عزّت ِ نفس کے خلاف معلوم ہورہی تھی کہ مسلمانوں کے سامنے سپر انداز ہو جائیں۔ ابھی فتح مکہ کے دو ہفتے بھی نہ گذرے تھے کہ ہوازن و ثقیف کے جنگجو قبیلوں کے سرداروں نے مالک بن عوف نضری کے پاس جمع ہوکر یہ طئے کیا کہ مسلمانوں پر حملہ کردیاجائے، یہ دونوں قبیلے بڑے بہادر اور لڑائی کے دھنی تھے، ثقیف عزت و شوکت میں قریش کے ہمسر سمجھے جاتے تھے، دولت و ثروت میں بھی ان سے کم نہ تھے، ہوازن تیر اندازی میں بے مثل مہارت رکھتے تھے اور مویشیوں کی کثرت نے بھی ان کا کوئی حریف نہ تھا ، ان قبائل کے ساتھ مضر ، جشم اور سعدبن بکر کے قبیلے تھے ، ان سب کا تعلق قیس عیلان سے تھا ، انھوں نے باہم مشورہ کرکے مالک بن عوف نضری کو سپہ سالار تجویز کیا جس کی عمر اس وقت تیس سال تھی اور مسلمانوں پر عام حملہ کا منصوبہ بنایا.

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔