Tuesday 26 July 2016

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خود ایرانیوں کے مقابلے پر آمادہ ہونا

فاروق اعظمؓ کو یہ حالت مدینہ منورہ میں ذیقعدہ کے مہینے میں معلوم ہوئی،آپ نے اُسی وقت ایک حکم تو مثنی بن حارثہ کے نام بھیجا کہ ربیعہ اورمضر کے قبائل کو جو عراق اور مدینہ کے درمیان نصف راستے سے اس طرف آباد ہیں،خود اپنے پاس طلب کرو اوراپنی جمعیت کو اس طرح طاقتور بناؤ اورمخدوش علاقے کو خالی کرکے سرحد عرب کی طرف سمٹ آؤ، ساتھ ہی اپنے تمام عاملوں کے نام احکام روانہ کئے کہ ہر قبیلے سے جنگ جو لوگ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے بھیجے جائیں،ان احکام کی روانگی کے بعد آپ حج بیت اللہ کے لئے مدینہ سے مکہ معظمہ کی جانب روانہ ہوئے ،حج بیت اللہ سے فارغ ہوکر مدینہ منورہ واپس تشریف لائے تو ملک کے ہر حصے سے لوگوں کے گروہ آنے شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام میدان مدینہ آدمیوں سے پُر نظر آنے لگا فاروق اعظمؓ نے حضرت طلحہؓ کو ہر اول کا سردار مقرر فرمایا زبیر بن العوام کو میمنہ پر اورعبدالرحمن بن عوف کو میسرہ پر مقرر فرما کر خود سپہ سالار بن کر اورفوج لے کر روانگی کا عزم فرمایا ،حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بُلا کر مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام بنایا اورفوج لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے اور چشمہ ضرار پر آکر قیام کیا اس تمام فوج میں لڑائی کے لئے بڑا جوش پیدا ہوگیا تھا کیونکہ خلیفہ وقت خود اس فوج کا سپہ سالار تھا۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فاروق اعظم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ کا خود ایران جانا مناسب نہیں معلوم ہوتا ،فاروق اعظم ؓ نے تمام سرداران فوج اور عام لشکری لوگوں کو ایک جلسۂ عظیم میں مخاطب کرکے مشورہ طلب کیا،تو کثرت رائے خلیفۂ وقت کے ارادے کے موافق ظاہر ہوئی، یعنی لشکری لوگوں نے خلیفہ وقت کے حیثیت سپہ سالار ملک ایران کی طرف جانے کو مناسب سمجھا لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے فرمایا کہ میں اس رائے کو ناپسند کرتا ہوں خلیفہ وقت کا خود مدینہ سے تشریف لے جانا خطرہ سے خالی نہیں؛ کیونکہ اگر کسی سردار کو میدان جنگ میں ہزیمت حاصل ہو تو خلیفہ وقت بآسانی اُس کا تدارک کرسکتے ہیں ؛لیکن خدانخواستہ خود خلیفہ وقت کو میدان جنگ میں کوئی چشم زخم پہنچے تو پھر مسلمانوں کے کام کا سنبھلنا دشوار ہوجائے گا یہ سُن کر مدینہ منورہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی بلوائے گئے اور تمام اکابر صحابہؓ سے اس کے متعلق مشورہ کیا گیا،حضرت علیؓ اور تمام جلیل القدر صحابہؓ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی رائے کو پسند کیا ،فاروق اعظم نے دوبارہ لشکری لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ خود عراق کی جانب جانے کو تیار تھا لیکن صحابہ کرام کے تمام صاحب الرائے حضرات میرے جانے کو ناپسند کرتے ہیں،لہذا میں مجبور ہوں اور کوئی دوسرا شخص تمہارا سپہ سالار بن کر تمہارے ساتھ جائے گا،اب صحابہ کرام کی مجلس میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا کہ کس کو سپہ سالا ر عراق بنا کر بھیجا جائے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے انکار فرمایا، ابو عبیدہؓ وخالدؓ ملک شام میں مصروف پیکار تھے۔
اسی غور وفکر کی حالت میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے فرمایا کہ میں ایک شخص کا نام لیتا ہوں کہ اُس سے بہتر دوسرا شخص نہیں بتایا جاسکتا یہ کہہ کر انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا نام لیا سب نے ان کی تائید کی اورحضرت عمر فاروق ؓ نے بھی پسند فرمایا ۔
سعد بن ابی وقاصؓ آنحضرت صلی اللہ کے ماموں اوربڑے عالی مرتبہ صحابی تھے اُن دنوں حضرت سعدؓ قبیلہ ہوازن کے صدقات کی وصولی پر مامور تھے،اُسی وقت اُن کو خط لکھ کر بھیجا گیا کہ فورا مدینہ کی طرف آؤ ؛چنانچہ حضرت سعد چند روز کے بعد فاروق اعظمؓ کی خدمت میں پہنچے لشکر مقام ضرار میں مقیم رہا فاروق اعظمؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو مناسب ہدایات کیں اور ہر ایک چھوٹے بڑے واقعےسے اطلاع دیتے رہنے کی تاکید کرکے اورسپہ سالار فواج بنا کر روانہ کیا،سعد بن ابی وقاصؓ چار ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوئے اوراٹھارہ منزلیں طے کرکے مقام ثعلبہ میں پہنچ کر مقیم ہوئے،سعدؓ کی روانگی کے بعد ہی فاروق اعظمؓ نے دو ہزار یمانی اور دوہزار نجدی بہادروں کا لشکر سعدؓ کی کمک کے لئے روانہ فرمایا جو سعد بن ابی وقاص ؓ سے آملے ،مثنیٰ بن حارثہ موضع ذی وقار میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی آمد کے منتظر آٹھ ہزار آدمیوں کا لشکر لئے ہوئے پڑے تھے کہ حضرت سعدؓ کے ساتھ مل کر فرات کی طرف بڑھیں،حضرت مثنیٰ بن حارثہؓ واقعہ جسر میں زخمی ہوگئے تھے اُن کے زخموں کی حالت روز بروز خراب ہوتی گئی،بالآخر جب کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ مقام ثعلبہ میں جاکر فروکش ہوئے ہیں،تو وہاں خبر پہنچی کہ حضرت مثنیٰ بن حارثہؓ نے انتقال فرمایا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔