Tuesday 26 July 2016

اسلامی سفارت ایران میں

اس سفارت میں جو قادسیہ سے مدائن کی جانب روانہ ہوئے مندرجہ ذیل حضرات شامل تھے،نعمان بن مقرنؓ قیس بن زراراہؓ اشعثؓ بن قیس، فرات بن حبانؓ،عاصم بن عمرؓ، عمرو بن معدیکربؓ، مغیرہ بن شعبہؓ، معنی بن حارثہؓ، عطار بن حاجبؓ، بشیر بن ابی رہم،حنظلہ بن الربیعؓ،عدی بن سہیلؓ، یہ تمام حضرات اپنے عربی گھوڑوں پر سوار راستے میں رستم کے لشکر کو چھوڑتے ہوئے سیدھے مدائن پہنچے،وہاں یزد جرد نے اُن سفیروں کے آنے کی خبر سُن کر دربار کو خوب آراستہ کیا،جب یہ اسلامی سفیر دربار میں اپنی سادہ وسپاہیانہ وضع کے ساتھ داخل ہوئے،تو تمام دربار ان کو دیکھ کر حیران رہ گیا ۔
اول یزد جرد نے ان سے معمولی سوالات کئے اوراُن کے باصواب جواب پاکر دریافت کیا کہ تم لوگوں کو ہمارے مقابلے کی جرأت کیسے ہوئی اور تم کس طرح اس بات کو بھول گئے کہ تمہاری قوم اس دنیا میں ذلیل و احمق سمجھی جاتی ہے ،کیا تم اس بات کو بھی بھول گئے ہو کہ جب کبھی تم لوگوں سے کوئی سرکشی یا بغاوت دیکھی جاتی تھی تو ہم اپنی سرحدوں کے عاملوں اور صوبے داروں کو حکم دیا کرتے تھے کہ تم کو سیدھا کردیں؛چنانچہ وہ تم کو ٹھیک بنادیا کرتے تھے۔
یہ سُن کر حضرت نعمانؓ بن مقرن نے جواب دیا، کہ ہم دنیا سے بت پرستی اور شرک مٹانے کی کوشش کرتے اورتمام دنیا کے سامنے اسلام پیش کرتے ہیں کہ اسلام ہی کے ذریعہ انسان سعادت انسانی حاصل کرسکتا ہے،اگر کوئی شخص اسلام قبول نہیں کرتا تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی حفاظت وسرپرستی میں سپرد کردے اورجزیہ ادا کرے لیکن اگر وہ اسلام اور ادائے جزیہ دونوں باتوں سے انکار کرتا ہے تو اُس کے اورہمارے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی۔

قیس بن زرارہ کی تقریر
یرذجرداس گفتگو کو سُن کر برافروختہ ہوا لیکن ضبط کرکے بولا کہ تم لوگ محض وحشی لوگ ہو تمہاری تعداد بھی کم ہے،تم ہمارے ملک کے کسی حصہ کی طمع نہ کرو،ہم تم پر اس قدر احسان کرسکتے ہیں کہ تم کو کھانے کے لئے غلہ اورپہننے کے لئے کپڑا دے دیں اور تمہارے اوپر کوئی ایسا حاکم مقرر کردیں ،جو تمہارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے،اس بات کو سُن کر حضرت قیس بن زراراہ آگے بڑھے اور کہا کہ یہ لوگ جو تمہارے سامنے موجود ہیں،رؤسا وشرفائے عرب ہیں اور شرفائے عرب ایسی لغو باتوں کا جواب دینے سے شرم کرتے ہیں میں تمہاری باتوں کا جواب دیتا ہوں اوریہ سب میری باتوں کی تصدیق کرتے جائیں گے ،
سنو! تم نے جو عرب کی حالت اوراہل عرب کی کیفیت بیان کی درحقیقت ہم اس سے بھی بدرجہا زیادہ خراب وناقص حالت میں تھے؛ لیکن خدائے تعالیٰ نے ہم پر بڑا فضل واحسان کیا کہ ہماری ہدایت کے لئے نبی بھیجا،جس نے ہم کو صراط مستقیم کی ہدایت کی اور حق وصداقت کے دشمنوں کو مغلوب وذلیل کیا اوردنیا میں فتوحات ہونے کا ہم کو وعدہ دیا پس تمہارے لئے اب مناسب یہی ہے کہ تم ہم کو جزیہ دینا منظور کرویا اسلام قبول کرو ورنہ ہمارے تمہارے درمیان تلوار فیصلہ کردے گی۔
یزد جرد اس کلام کو سُن کر آپے سے باہر ہوگیا اُس نے کہا اگر سفیروں کا قتل کرنا جائز ہوتا تو میں تم کو ضرور قتل کردیتا ،پھر اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ ایک مٹی کی ٹوکری بھر کر لاؤ اور جو شخص ان میں سردار ہے ان کے سر پر رکھ دو اوراسی حالت میں اس کو مدائن سے باہر نکال دو،پھر بولا کہ رستم بہت جلد تم سب کو قادسیہ کی خندق میں دفن کردے گا، اتنے میں مٹی کی ٹوکری آگئی حضرت عاصمؓ نے فوراً اُٹھ کر وہ ٹوکری اپنے کاندھےپر اٹھالی اورکہا کہ میں اس وفد کا سردار ہوں،یہ سب حضرات یزد جردکے دربار سے نکلے اوراپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر مٹی کی وہ ٹوکری لئے ہوئے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے پاس پہنچے اورکہا کہ ملک ایران کی فتح مبارک ہو،خدائے تعالیٰ نے ان کے ملک کی مٹی ہم کو عطا کی ہے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بھی اس تفاول سے بہت ہی خوش ہوئے۔
ان سفراء کی واپسی کے بعد دربار ایران سے رستم کے پاس ساباط میں تازہ احکام پہنچے اورکمک سردار بھی روانہ کئے گئے ،ساٹھ ہزار فوج کا بڑا حصہ خاص رستم کے زیر کمان تھا،مقدمۃ الجیش کا سردار جالینوس تھا جس کے ہمراہ چالیس ہزار کا لشکر تھا،بیس ہزار فوج ساقہ میں تھی ،میمنہ پر تیس ہزار کی جمعیت کے ساتھ ہرمزان اورمیسرہ پر تیس ہزار کی جمعیت کے ساتھ مہران بن بہرام رازی تھا اس طرح کل ایرانی لشکر کی تعداد ایک لاکھ اسی ہزار تک پہنچ گئی،اس کے علاوہ ایک سو جنگی ہاتھی قلب میں رستم کے ساتھ تھے پچھیتر ہاتھی میمنہ میں اور پچھیتر میسرہ میں ،بیس ہاتھی مقدمۃ الجیش میں اورتیس ساقہ میں تھے،اس ترتیب وسامان کے ساتھ رستم ساباط سے روانہ ہوکر مقام کو ثا میں پہنچا اوروہاں خیمہ زن ہوا،قادسیہ اور مدائن کے درمیان تیس چالیس کوس کا فاصلہ تھا ایرانی اوراسلامی لشکروں کا فاصلہ اب بہت ہی کم رہ گیا تھا طرفین سے چھوٹے چھوٹے دستے ایک دوسرے پر چھاپہ مارنے اور سامان رسد لوٹنے کے لئے ہر روز روانہ ہوتے رہتے تھے،رستم لڑائی کو ٹالنا چاہتا تھا،اس لئے اس نے مدائن سے قادسیہ تک پہنچنے میں چھ مہینے صرف کردئے،مقام کوثا سے روانہ ہوکر رستم قادسیہ کے سامنےپہنچا اورمقام عتیق میں خیمہ زن ہوا ،دربار ایران سے بار بار رستم کے پاس تقاضوں کے پیغام آتے تھے کہ جلد عربوں کا مقابلہ کرو، رستم یہ چاہتا تھا کہ بلا مقابلہ کام چل جائے تو اچھا ہے؛چنانچہ اس نے قادسیہ پہنچ کر سعد بن ابی وقاصؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ تم اپنے کسی سفیر کو ہمارے پاس بھیج دو تاکہ ہم اس سے مصالحت کی گفتگو کریں۔
حضرت سعد بن وقاصؓ نے حضرت ربعی بن عامرؓ کو سفیر بناکر رستم کے پاس روانہ کیا رستم نے بڑے تکلف اور شان وتجمل کے ساتھ دربار کیا،سونے کا تخت بچھوایا اوراُس کے چاروں طرف دیباوحریر اور رومی قالینوں کا فرش کرایا،تکیوں اور شامیانوں کی جھالریں سچے موتیوں کی تھیں،غرض حضرت ربعی بن عامرؓ اس شان وشوکت والے دربار میں داخل ہوئے اور گھوڑے کو ایک گاؤ تکئے سے جولبِ فرش پڑا ہوا تھا باندھ کر تیر کی اَنی ٹیکتے ہوئے اوراس فرش کو چاک وسوراخ دار بناتے ہوئے تخت کی طرف بڑھے اوربڑھ کر رستم کے برابر جا بیٹھے لوگوں نے ربعیؓ کو تخت سے نیچے اتارنا اور ان کے ہتھیاروں کو علیحدہ کرنا چاہا،توحضرت ربعیؓ نے جواب دیا کہ میں تمہارے یہاں تمہارا طلبیدہ آیا ہوں،خود اپنی کوئی استدعا لے کر نہیں آیا،ہمارے مذہب میں اس کی سخت ممانعت ہے کہ ایک شخص خدا بن کر بیٹھے اور باقی آدمی بندوں کیطرح ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے کھڑے ہوں،رستم نے اپنے آدمیوں کو خود منع کردیا کہ کوئی شخص اس کے حال سے معترض نہ ہو مگر کچھ سوچ کر ربعیؓ خود رستم کے پاس سے اُٹھے اورتخت سے اتر کر خنجر سے زمین پر بچھے ہوئے قالین اورفرش کو چاک کرکے نیچے سے خالی زمین نکال کر اُس پر بیٹھ گئے اور رستم سے مخاطب ہوکر کہا کہ ہم کو تمہارے اس پر تکلف فرش کی بھی ضرورت نہیں ہمارے لئے خدائے تعالیٰ کا بچھا یا ہوا فرش یعنی زمین کافی ہے اس کے بعد رستم نے ترجمان کے ذریعہ حضرت ربعیؓ سے سوال کیا کہ اس جنگ وپیکار سے تمہارا مقصد کیا ہے؟
حضرت ربعیؓ نے جواب دیا کہ ہم خدائے تعالیٰ کے بندوں کو دنیا کی تنگی سے دارِ آخرت کی وسعت میں لانا ،ظلم اورمذاہب باطلہ کی جگہ عدل اوراسلام کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں،جوشخص عدل اور اسلام پر قائم ہوجائے گا،ہم اس سے اوراس کے ملک واموال سے معترض نہ ہوں گے جو شخص ہمارے راستے میں حائل ہوگا،ہم اس سے لڑیں گے یہاں تک کہ جنت میں پہنچ جائیں گے یا فتح مند ہوں گے،اگر تم جزیہ دینا منظور کرو گے،تو ہم اُس کو قبول کرلیں گے اور تم سے معترض نہ ہوں گے اورجب کبھی تم کو ہماری ضرورت ہوگی،تمہاری مدد کو موجود ہوں گے اور تمہارے جان ومال کی حفاظت کریں گے،یہ باتیں سُن کر رستم نے سوال کیا کہ کیا تم مسلمانوں کے سردار ہو؟ حضرت ربعیؓ نے جواب دیا کہ نہیں میں ایک معمولی سپاہی ہوں،لیکن ہم میں ہر ایک شخص خواہ ادنی ہو،اعلیٰ کی طرف سے اجازت دے سکتا ہے،اورہر متنفس ہر معاملے میں پورا اختیار رکھتا ہے ،یہ سُن کر رستم اوراس کے درباری دنگ رہ گئے،پھر رستم نے کہا کہ تمہاری تلوار کا نیام بہت بوسیدہ ہے،ربعیؓ نے فورا تلوار نیام سے کھینچ کر کہا کہ اس پر آب ابھی دکھائی گئی ہے،پھر رستم نے کہا کہ تمہارے نیزے کا پھل بہت چھوٹا ہے،یہ لڑائی میں کیا کام دیتا ہوگا،حضرت ربعیؓ نے فرمایا کہ یہ پھل سیدھا دشمن کے سینے کو چھید تا ہوا پار ہوجاتا ہے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آگ کی چھوٹی سی چنگاری تمام شہر کو جلا ڈالنے کے لئے کافی ہوتی ہے، اسی قسم کی نوک جھونک کی باتوں کے بعد رستم نے کہا کہ اچھا ہم تمہاری باتوں پر غور کرلیں،اور اپنے اہل الرائے اشخاص سے مشورہ بھی لے لیں،ربعیؓ وہاں سے اُٹھے اوراپنے گھوڑے کے پاس آکر اُس پر سوار ہوکر حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کی خدمت میں پہنچے ۔
دوسرے روز رستم نے حضرت سعدؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ آج بھی میرے پاس اپنے ایلچی کو بھیج دیجئے، حضرت سعدؓ نے حضرت حذیفہؓ بن محصن کو روانہ کیا،حضرت حذیفہ بھی اسی انداز میں اور اسی آزادانہ روش سے گئے،جیسے کہ حضرت ربعیؓ گزشتہ روز گئے تھے،حضرت حذیفہ رستم کے سامنے پہنچ کر گھوڑے سے نہ اُترے؛بلکہ گھوڑے پر چڑھے ہوئے اس کے تخت کے قریب پہنچ گئے،رستم نے کہا کہ کیا سبب ہے کہ آج تم بھیجے گئے ہو اورکل والے صاحب نہیں آئے، حضرت حذیفہ نے کہا کہ ہمارا سردار عدل کرتا ہے،ہر خدمت کے لئے ہر ایک شخص کوموقع دیتا ہے کل ان کی باری تھی،آج میری باری آگئی،رستم نے کہا کہ تم ہم کو کتنے دنوں کی مہلت دے سکتے ہو،حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ آج سے تین روز تک کی۔ رستم یہ سُن کر خاموش ہوا اورحضرت حذیفہ ؓ اپنے گھوڑے کی باگ موڑ کر سیدھے اسلامی لشکر گاہ کی طرف روانہ ہوئے،آج بھی حضرت حذیفہؓ کی بے باکی اورحاضر جوابی سے تمام دربار حیران وششد رہ گیا اگلے روز رستم نے پھر لشکر اسلام سے ایک سفیر کو طلب کیا،آج حضرت سعدؓ نے مغیرہ بن شعبہؓ کو روانہ کیا،حضرت مغیرہؓ کو رستم نے لالچ بھی دینا چاہا اورڈرانے کی بھی کوشش کی ؛لیکن حضرت مغیرہؓ نے نہایت سخت اورمعقول جواب دیا،جس سے رستم کو غصہ آیا اور اس نے کہا کہ میں اب تم سے ہرگز صلح نہ کروں گا اورتم سب کو قتل کرڈالوں گا،حضرت مغیرہؓ وہاں سے اُٹھ کر اپنے لشکر گاہ کی جانب چلے آئے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔