Tuesday 26 July 2016

جنگَ الیس


اس شکست نے جو قبیلہ بکر بن وائل کو اپنے ہم قوم اور ہم وطن لوگوں کے ہاتھوں کے اٹھانی پڑی تھی عراق کے عربی النسل عیسائیوں کو آتش زیر پا کر دیا۔ انہوں نے طیش میں آ کر مسلمانوں سے ایک بار پھر جنگ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اپنا سردار بنو عجلان کے ایک شخص عبد السود عجلی کو بنایا اورحیرہ و ابلہ کے درمیان مقام الیس پر فوجیں اکٹھی کرنے لگے۔ ساتھ ہی دربار ایران سے مدد کی درخواست بھی کی۔ وہاں سے بہن جازویہ کو حکم ملا کہ وہ بھاری جمعیت لے کر عیسائیوں کی مدد کو پہنچے۔ یہ احکا م ملنے پر بہمن جاذویہ نے مناسب خیال کیا کہ وہ مسلمانوں سے فیصلہ کن مقابلہ کرنے کے لیے شہنشاہ اردشیر سے بالمشافہ گفتگو کرے۔ اس نے فوج کی کمان ایک سردار جابان کے سپرد کر کے اسے ہدایت کی کہ وہ فوج لے کر الیس جائے لیکن جہاں تک ممکن ہو دربا ر ایران سے اس کی واپسی تک جنگ کا آغاز نہ کیا جائے۔ خود وہ شہنشاہ سے مشورہ کرنے کے لیے روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ شہنشاہ اردشیر بیمار ہے۔ وہ وہیں ٹھہر گیا لیکن جابان کو کوئی ہدایت نہ بھیجی۔ ادھر جابان نے الیس پہنچ کر عیسائی فوجوں کے متصل پڑائو ڈال لیا اور انہیں مسلمانوں پر حملہ کرنے کے متعلق مشورے دینے لگا۔
خالدؓ کو معلو م تھا کہ عیسائیوں کی مدد کے لیے ایرانیو ں کا لشکر بھی جابان کے زیر سرکردگی میدان جنگ میں موجود ہے۔ انہیں صرف عربی النسل عیسائیوں سے مقام الیس میں اجتماع کی خبر ملی تھی۔ وہ اپنا لشکر لے کر پہلے حفیر پہنچے اور یہ اطمینان کر نے کے بعد کہ ان کے مقرر کر دہ اعمال وہاں کا نظم ونسق کامیابی سے چلارہے ہیں اور پشت کی جانب سے کسی حملے کااندیشہ نہیں دشمن کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے۔ الیس پہنچتے ہی انہوں نے عیسائیوں کو موقع تیاری کا دیے بغیر ان سے لڑائی چھیڑ دی۔ یہ حملہ اس قدر اچانک ہوا کہ عیسائی بالکل نہ سنبھل سکے اور پہلے ہی ہلے میں ان کا سالار قیس بن مالک مارا گیا۔ جب جابان نے محسوس کیا کہ عیسائیوں کی صفوں میں اضطراب پیدا ہونے لگا ہے تو وہ ایرانی فوج کاایک دستہ لے کر آگے بڑھا اور جوش انگیز جملوں سے عیسائیوں کی ہمت بندھانے لگا اورانہیں جم کر مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی تلقین کرنے لگا۔ اس کے مقرر کیے ہوئے آدمی عیسائیوں کی صفوں میں اعلا ن کرتے پھرتے تھے کہ بہمن جازویہ ان کی مدد کے لیے عنقریب ایک لشکر جرار لے کر پہنچنے والا ہے۔ اس کے آنے تک پامردی سے مسلمانوں کامقابلہ جاری رکھیں اورتمام خطرات کو نظر انداز کر کے بہادروں کی طرح میدان جنگ میں ڈٹے رہیں۔ چنانچہ عیسائی سنبھل گئے اورانہوں نے بڑی جرات اور دلیری سے مسلمانوں کے پیہم حملوں کو روکنااور ان کا مقابلہ کرنا شروع کیا۔ یہ عزم و ثبات اور صبر و استقلال دیکھ کر خالدؓ حیران رہ گئے اور انہوں نے مسلمانوںکو جوش دلایا کہ وہ ایک بارپھر بھرپور طاقت سے دشمن پر حملہ شروع کر دیں۔
عیسائیوں کو لڑتے ہوئے بہت دیر ہو چکی تھی۔ ان کی امیدوں کا واحد سہارا بہمن جاذویہ تھا۔ کیونکہ اس کے آنے تک ایرانی فوج ان سے مل کر جنگ میں حصہ نہیں لے سکتی تھی۔ لیکن بہمن کا کہیں پتا نہ چتھا۔ جابان بھی حیران تھاکہ کیا کرے کیانہ کرے۔ ادھر مسلمانوں کا دباو برابر بڑھتا چلا جا رہا تھا اور ان کے مقابلے میں عیسائیوں کی کوئی پیش نہ جا رہی تھی۔ آخر دشمن کی طاقتوں مے جواب دے دیا۔ ایک ایک کر کے ان کی صفیں ٹوٹنے لگیںَ اور وہ میدان جنگ سے فرار ہونے لگے۔ خالدؓ نے یہ دیکھ کر فوج میں اعلان کر دیا کہ بھاگنے والوں کا تعاقب کیا جائے اور انہیں زندہ پکڑ کر ان کے سامنے حاضر کیاجائے۔ صرف اسی شخص کو قتل کیا جائے جو کسی طرح قابو میں نہ آیئ اور مزاحمت پر آمادہ ہو جائے۔ چنانچہ مسلمانو ں اور ان کے مددگار عراقی عربوں نے جو اسلامی فوج میں شامل تھے ایسا ہی کیا اور عیسائی گروہ در گروہ میدان جنگ میں لائے جانے لگے۔
جابان کی ایرانی فوجوں نے جنگ شروع ہونے سے پہلے کھانا تیار کیا تھا اور وہ اطمینان سے بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ مسلمان بلائے ناگہانی کی طرح ان پر آٓپڑے اور وہ کھانا اسی طرح چھوڑ کر فرار ہو گئے خالد ؓ نے اپنی فوج سے کہا:
’’یہ کھانا اللہ نے تمہارے لیے تیار کرایا تھا اب تم مزے سے اسے کھائو‘‘۔
مسلمان دستر ؒوانوں کے اردگرد بیٹھ کر اور کھانا شروع کر دیا۔ عجیب عجیب کھانے تھے جنہیں مسلمانوںنے کبھی دیکھ تھا نہ چکھا تھا۔ وہ کھاتے جاتے تھے اوراللہ کا شکر ادا کرتے جاتے تھے۔ جس نے انہیں بے مانگے ان نعمتوں سے نوازا تھا۔
الیس کے قریب دریائے فرات اور دریائے باوقلی کے سنگم پر ایک شہر امغیشیایا منیشیا آباد تھا جو آباد ی کی کثرت اور مال و دولت کی فراوانی میں حیرہ کا ہم پلہ تھا۔ اس کے باشندو ں نے بھی الیس کی جنگ میں عیسائیوں اور ایرانیوں کی مدد کی تھی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد خالدؓ نے اس قصبے کا رخ کر کے اسے فتح کر لیا۔ یہاں سے بھی مسلمانوں کو کثیر مال غنیمت ہاتھ آیا اورجس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ مال غنیمت میں ہر سوار کے حصے میں علاوہ ا پنے حصے کے جو اسے ملا تھا پندرہ سو درہم آئے۔
اس کے بعد خالدؓ نے مال غنیمت کا پانچواں حصہ اور ان جنگوں میں گرفتار ہونے والے قیدی حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں روانہ کر دیے۔ انہیں کے ہمراہ ہی بنی عجل کے ایک شخص جندل کو بھی بھیجاگیا جس نے الیس کی فتح مال غنیمت اور قیدیوں کی کثرت اور خالدؓ کے کارناموں کا حال بالتفصیل حضرت ابوبکرؓ سے بیان کیا۔ یہ واقعات سن کر انہوں نے فرمایا :
عورتیں اب خالدؓ جیسا شخص پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔