Friday 20 March 2015

معجزہِ شق القمر پر اعتراض کہ اسکا تاریخ کی کتابوں میں ذکر نہیں


معجزہ شق القمر (چاند دو ٹکڑے ہونا یا چاند پھٹنا) کے متعلق جو اشکالات (اعتراضات) مشہور ہیں سب کے جواب علماء نے دئیے ہیں۔ انگریز دور میں پادری فنڈر نے مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے ساتھ مناظرہ میں وہ اشکالات پیش کئے تھے۔ مولانا نے ایسے جواب دئیے کے لاجواب ہُوا (یہ جوابات مولانا کی کتاب اظہار الحق کی اردو شرح از مفتی تقی عثمانی صاحب بائبل سے قرآن تک کی تیسری جلد میں صفحہ ۱۱۵پر دیکھے جا سکتے ہیں۔)۔ مفتی عنایت ﷲ صاحب نے رسالہ الکلام المبین میں بھی بعض اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ یہاں اُس کی نقل کی گنجائش نہیں، مفتی صاحب نے بعض راجاوُں کے دیکھنے کے بھی مستند حوالے دیے ہیں۔ مولانا رفیع الدین صاحب کا ایک مستقل رسالہ ان عتراضات کے جواب میں ہے۔

ہندوستان کی مشہور تاریخ فرشتہ ( مصنف محمد قاسم فرشتہ ۱۰۱۵ ہجری)میں بھی اس کا ذکر موجود ہے جو انھوں نے بحوالہ کتاب " تحفۃ المجاہدین " میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت عرب سے قدم گاہ ِحضرت آدم علیہ السلام کی زیارت کے لئے سراندیپ(لنکا) کو آتے ہوئے ساحلِ مالا بار ( ہند ) پر اتری ، ان بزرگوں نے وہاں کے راجہ سامری سے ملاقات کی اور معجزۂ شق القمر کا ذکر کیا، راجہ نے اپنے منجموں کو پرانے رجسٹرات کی جانچ پڑتال کا حکم دیا، چنانچہ منجموں نے بتلایاکہ فلاں تاریخ کو چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور پھر مل گیا،اس تحقیق کے بعد راجہ نے اسلام قبول کر لیا، ہندوستان کے بض شہروں میں اس کی تاریخ محفوظ کی گئی اور ایک عمارت تعمیر کر کے اُس کی تاریخ" شبِ انشقاقِ قمر" کے نام سے مقرر کی گئی۔

یہ اعتراض کہ کہیں تاریخ میں اس کا ذ کر نہیں ۔ اُس کا عقلی جواب یہ ہے کہ مہا بھارت جیسی عظیم الشان لڑائی کا ذکر بھی کسی اور تاریخ میں نہیں تو اُس کو بھی غلط کہنا چاہیے اور توریت شریف میں ہے کہ حضرت یوشع علیہ السلام کے لیے آفتاب ٹھہر گیا تھا اُس کو بھی کسی اہلِ تاریخ نے نہیں لکھا حالانکہ یہ واقعہ دن کا ہے اور شق القمر رات کو ہُوا جس کا پہلے سے کسی کو خیال نہ تھا جیسا کہ خسوف وکسوف (چاند کو گرہن لگنا وغیرہ کے معاملے میں) میں پہلے سے خبر ہوتی ہے تو دیکھنے والے تیار ہو جاتے ہے۔

علاوہ بریں تعصب مذہبی (اسلام سے بغض) وہ چیز ہے کہ ایسی خبروں کی روایت میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اِس کا ثبوت حال کا واقعہ ہے ۵ شعبان 1345 مطابق 7 فروری 1927کو پیش آیا کہ مغرب کے وقت حضرت محمد ﷺ کا نام مبارک آسمان پر نظر آیا اور اُس کو صدہا آدمیوں نے اور مختلف مقامات پر جیسے الہ آباد ٫ جبل پور٫ سکھر وغیرہ میں نصف گھنٹہ تک دیکھا اور مسلمان اخباروں نے چھاپا لیکن ہندو اخباروں نے نہیں چھاپا ۔ راقم (مصطفی خان بجنوری ) نے اخباروں کی یہ متعصبانہ کاروائی دیکھ کر بعض مقامات سے اُس کی تصدیق کرائ ۔چناچہ چھیالیس اشخاص کے نام مع ولدیت سکونت و دستخط بقایا و نشان انگھوٹا راقم کے پاس موجود ہیں جس میں بہت سے ہندو بھی ہیں۔ اس واقعہ کو اس وقت صرف چار سال کے قریب گزرے ہیں مگر تاریخ دانوں سے پوچھئے تو کوئ پتہ نہ دیگا ۔ خصوصاّ غیر مسلم لوگ جن میں یورپین بھی شامل ہیں جو حواداثات کی تلاش اور تحقیق کے مدعی ہیں وہ بھی تعصب کی وجہ سے اغماص کر گئے ہیں ۔ پس اگر معجزہ شق القمر کی روایت کسی غیر مسلم تاریخ میں نہ ہو تو کیا تعجب کی بات ہے ۔ اہلِ اسلام کی کتب حدیث میں نہایت صحیح اور مسلسل سندوں کے ساتھ جن میں کسی شک و شبہ کی گنجا ئش نہیں موجود ہے اور راوایت اس کے درجہ تواتر کے قریب تک پہنچ گئ ہے۔

جما عت اصحاب حضرت علیؓ وابن عباسؓ وابن عمرؓ وجبیر بن معطم بن حزیفہ بن الیمان اورانس بن مالکؓ نے اِس قصہ کو راوایت کیا ہے تو اہلِ تاریخ کا ذ کر کرنا نقصان دہ بهی نہیں اور یہ جواب علی سبیل النزیل ہے ورنہ بعض مُورخین نے ذ کر بھی کیا ہے ۔ چناچہ تاریخ فرشتہ نے ملیبار کے راجہ کا شق القمر کو دیکھنا نقل کیا ہے۔
(اسلام اور عقلیات صفحہ ۲۹۴)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔