Friday 20 March 2015

شق القمر کا واقعہ


اسلامی دعوت مشرکین کے ساتھ اسی کشمکش کے مرحلے سے گزر رہی تھی کہ اس کائنات کا نہایت عظیم الشان اور عجیب وغریب معجزہ رونما ہوا۔ نبیﷺ کے ساتھ مشرکین کے مجادلات کے جو بعض نمونے گزر چکے ہیں ان میں یہ بات بھی موجود ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبو ت پر ایمان لانے کے لیے خرق عادت نشانیوں کا مطالبہ بھی کیا تھا اور قرآن کے بیان کے مطابق انہوں نے پورا زور دے کر قسم کھائی تھی کہ اگر آپﷺ نے ان کی طلب کردہ نشانیاں پیش کردیں تو وہ ضرور ایمان لائیں گے مگر اس کے باوجود ان کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا گیا اور ان کی طلب کرد ہ کوئی نشانی پیش نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کی سنت رہی ہے کہ جب کوئی قوم اپنے پیغمبر سے کوئی خاص نشانی طلب کر ے ، اور دکھلائے جانے کے بعد بھی ایمان نہ لائے تو اس کی قوم کی مہلت ختم ہوجاتی ہے اور اسے عذاب عام سے ہلاک کردیا جاتا ہے۔ چونکہ اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی اور اسے معلوم تھا کہ اگر قریش کو ان کی طلب کردہ کوئی نشانی دکھلا بھی دی جائے تو وہ فی الحال ایمان نہیں لائیں گے۔ جیسا کہ اس کا ارشاد ہے :
وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْ‌نَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌هُمْ يَجْهَلُونَ (۶: ۱۱۱)
''یعنی اگر ہم ان پر فرشتے اتار دیں ، اور مردے ان سے باتیں کریں اور ہر چیز ان کے سامنے لا کر اکٹھا کردیں تو بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ سوائے اس صورت کے کہ اللہ چاہ جائے۔ مگر ان میں سے اکثر نادانی میں ہیں۔''
اور اللہ کویہ بھی معلوم تھا کہ اگر کوئی نشانی نہ بھی دکھلائی جائے لیکن مزید مہلت دے دی جائے تو آگے چل کر یہی لوگ کوئی نشانی دیکھے بغیر ایمان لائیں گے۔ اس لیے انہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی طلب کردہ کوئی نشانی نہیں دکھلائی ، اور خود نبیﷺ کو بھی اختیار دیا کہ اگر آپ چاہیں تو ان کی طلب کردہ نشانی ان کو دکھلادی جائے لیکن پھرایمان نہ لانے پر انہیں ساری دنیا سے سخت تر عذاب دیا جائے گا اور چاہیں تو نشانی نہ دکھلائی جائے اور توبہ و رحمت کا دروازہ ان کے لیے کھول دیا جائے۔ اس پر نبیﷺ نے بھی یہی آخری صور ت اختیار فرمائی کہ ان کے لیے توبہ ورحمت کا دروازہ کھول دیا جائے۔( مسند احمد ۱/۳۴۲، ۳۴۵)
تو یہ تھی مشرکین کو ان کی طلب کردہ نشانی نہ دکھلانے کی اصل وجہ لیکن چونکہ مشرکین کو اس نکتے سے کوئی سروکار نہ تھا، اس لیے انہوں نے سوچا کہ نشانی طلب کرنا آپ کو خاموش اور بے بس کرنے کا بہتر ین ذریعہ ہے۔ اس سے عام لوگوں کو مطمئن بھی کیا جاسکتا ہے کہ آپﷺ پیغمبر نہیں بلکہ سخن ساز ہیں۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ چلو اگر یہ نامزد نشانی نہیں دکھلاتے تو کسی تعیین کے بغیر کوئی بھی نشانی طلب کی جائے۔ چنانچہ انہوں نے سوال کیا کہ کیا کوئی بھی نشانی ایسی ہے جس سے ہم یہ جان سکیں کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ؟اس پر آپﷺ نے اپنے پروردگار سے سوال کیا کہ انہیں کوئی نشانی دکھلا دے۔ جواب میں حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے ، اور فرمایا کہ انہیں بتلا دو آج رات نشانی دکھلائی جائے گی۔ (الدر المنثور بحوالہ ابو النعیم فی الدلائل ۶/۱۷۷)اور رات ہوئی تو اللہ نے چاند کو دوٹکڑے کر کے دکھلادیا۔
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی ا للہ عنہ سے مروی ہے کہ اہل مکہ نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ آپ انہیں کوئی نشانی دکھلائیں۔ آپ نے انہیں دکھلادیا کہ چاند دوٹکڑے ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے دونوں ٹکڑوں کے درمیان میں حراء پہاڑ کو دیکھا۔ (صحیح بخاری مع فتح الباری ۷/۲۲۱ح ۳۸۶۸ )
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ چاند دوٹکڑے ہوا، اس وقت ہم لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ منی ٰ میں تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: گواہ رہو اور چاند کا ایک ٹکڑا پھٹ کر پہاڑ ( یعنی جبل ابو قبیس ) کی طرف جارہا۔ (( صحیح بخاری مع فتح الباری ًح ۳۸۶۹))
چاند کے دوٹکڑے ہونے کا یہ معجزہ بہت صاف تھا۔ قریش نے اسے بڑی وضاحت سے کافی دیر تک دیکھا اور آنکھ مل مل کر اور صاف کر کرکے دیکھا اور ششدر رہ گئے لیکن پھر بھی ایمان نہیں لائے ، بلکہ کہا تو یہ کہا کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے اور حقیقت یہ ہے کہ محمد نے ہماری آنکھوں پر جادو کردیا ہے۔ اس پر بحث ومباحثہ بھی کیا۔ کہنے والوں نے کہا کہ اگر محمد نے تم پر جادو کیا ہے تو وہ سارے لوگوں پر تو جادو نہیں کر سکتے۔ باہر والوں کو آنے دو ،دیکھو کیا خبر لے کر آتے ہیں۔ اس کے بعد ایسا ہو ا باہر سے جو کوئی بھی آیا اس نے اس واقعے کی تصدیق کی، لیکن پھر بھی ظالم ایمان نہیں لائے اور اپنی ڈگر پر چلتے رہے۔
یہ واقعہ کب پیش آیا۔ علامہ ابن حجرؒ نے اس کا وقت ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے لکھا ہے۔ (فتح الباری ۶/۶۳۸)
یعنی ۸ نبوت ، علامہ منصور پوری نے۹ نبوت لکھا ہے(رحمۃ للعالمین ۳/۱۵۹)
مگر یہ دونوں بیانات محل نظر ہیں۔ کیونکہ ۸ اور ۹ نبوت میں قریش کی طرف سے آپﷺ اور بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کا مکمل طور پر بائیکاٹ چل رہا تھا، بات چیت تک بند تھی اور معلوم ہے کہ یہ واقعہ اس قسم کے حالات میں پیش نہیں آیا تھا۔ حضرت عائشہؓ نے اس کی ایک آیت ذکر کرکے اس سورۃ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ جب نازل ہوئی تو میں مکہ میں ایک کھیلتی ہوئی بچی تھی۔(صحیح بخاری تفسیر سورۂ قمر) یعنی یہ عمر کا
وہ مرحلہ تھا جس میں اس قسم کی باتیں یاد بھی ہوجاتی ہیں اور بچپن کا کھیل بھی جاری رہتا ہے۔ یعنی ۵، ۶ ، برس کی عمر ، لہٰذا واقعہ شق قمر کے لیے ۱۰ یا ۱۱ نبوت زیادہ قرین قیاس ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے اس بیان سے کہ اس وقت ہم منیٰ میں تھے۔ یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ حج کا زمانہ تھا یعنی قمری سال اپنے خاتمے پر تھا۔شق قمر کی یہ نشانی شاید اس بات کی بھی تمہید رہی ہو کہ آئندہ اسراء اور معراج کا واقعہ پیش آئے تو ذہن اس کے امکان کو قبول کرسکیں۔ واللہ اعلم

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔