Friday 20 March 2015

ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام


یہ یثرب کے اطراف میں سکونت پذیر تھے۔ جب سوید بن صامت اور ایاس بن معاذ کے ذریعے یثرب میں رسول اللہﷺ کی بعثت کی خبر پہنچی تو غالباً یہ خبر ابوذرؓ کے کان سے بھی ٹکرائی اور یہی ان کے اسلام لانے کا سبب بنی۔
ان کے اسلا م لانے کا واقعہ صحیح بخاری میں تفصیل سے مروی ہے۔ سیّدنا ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ ابوذرؓ نے فرمایا : میں قبیلہ غفار کا ایک آدمی تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ مکے میں ایک آدمی نمودار ہوا ہے جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا : تم اس آدمی کے پاس جاؤ، اس سے بات کرو اور میرے پاس اس کی خبر لاؤ۔ وہ گیا ، ملاقات کی ، اور واپس آیا۔ میں نے پوچھا : کیا خبر لائے ہو ؟ بو لا : اللہ کی قسم! میں نے ایک ایسا آدمی دیکھا ہے جو بھلائی کا حکم دیتا ہے ، اور برائی سے روکتا ہے۔ میں نے کہا :تم نے تشفی بخش خبر نہیں دی۔ آخر میں نے خود توشہ دان اور ڈنڈا اٹھا یا اور مکہ کے لیے چل پڑا۔ (وہاں پہنچ تو گیا ) لیکن آپﷺ کو پہچانتا نہ تھا اور یہ بھی گوارا نہ تھا کہ آپ کے متعلق کسی سے پوچھوں۔چنانچہ میں زمزم کا پانی پیتا اور مسجد حرام میں پڑا رہتا۔ آخر میرے پاس سے علیؓ کا گزر ہوا۔ کہنے لگے: آدمی اجنبی معلوم ہوتا ہے۔ میں نے کہا : جی ہاں۔ انہوں نے کہا: اچھا توگھر چلو۔ میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ نہ وہ مجھ سے کچھ پوچھ رہے تھے نہ میں ان سے کچھ پوچھ رہا تھا اور نہ انہیں کچھ بتاہی رہا تھا۔
صبح ہوئی تومیں اس ارادے سے پھر مسجد حرام گیا کہ آپﷺ کے متعلق دریافت کروں ، لیکن کوئی نہ تھا جو مجھے آپﷺ کے متعلق کچھ بتا تا۔ آخر میرے پاس پھر حضرت علیؓ گزرے (دیکھ کر) بولے: اس آدمی کوابھی اپنا ٹھکانہ معلوم نہ ہوسکا ؟ میں نے کہا : نہیں۔ انہوں نے کہا :اچھا تو میرے ساتھ چلو۔ اس کے بعد انہوں نے کہا: اچھا تمہارا معاملہ کیا ہے ؟ اور تم کیوں اس شہر میں آئے ہو ؟ میں نے کہا: آپ راز داری سے کام لیں تو بتاؤں۔ انہوں نے کہا : ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔ میں نے کہا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہاں ایک آدمی نمودار ہوا ہے ، جو اپنے آپ کو اللہ کا نبی بتاتا ہے، میں نے اپنے بھائی کو بھیجا کہ وہ بات کر کے آئے مگراس نے پلٹ کر کوئی تشفی بخش بات نہ بتلائی۔ اس لیے میں نے سوچا کہ خود ہی ملاقات کر لوں۔ حضرت علیؓ نے کہا : بھئ تم صحیح جگہ پہنچے، دیکھو میرا رخ انھی کی طرف ہے۔ جہاں میں گھسوں وہاں تم بھی گھس جانا اور ہاں ! اگر میں کسی ایسے شخص کو دیکھوں گا جو تمہارے لیے خطرہ ہے تو دیوار کی طرف اس طرح جا رہوں گا گویا اپنا جوتا ٹھیک کررہا ہوں ، لیکن تم راستہ چلتے رہنا۔ اس کے بعد حضرت علیؓ روانہ ہوئے اور میں بھی ساتھ ساتھ چل پڑا۔ یہاں تک کہ وہ اندر داخل ہوئے، اور میں بھی ان کے ساتھ نبیﷺ کے پاس جا داخل ہوا اور عرض پر داز ہوا کہ آپ(ﷺ )مجھ پر اسلام پیش کریں۔ آپﷺ نے اسلام پیش فرمایا اور میں وہیں مسلمان ہوگیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے مجھ سے فرمایا : اے ابوذر ! اس معاملے کو پس پردہ رکھو اور اپنے علاقے میں واپس چلے جاؤ۔ جب ہمارے ظہور کی خبر ملے تو آجانا۔ میں نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں تو ان کے درمیان ببانگ دہل اس کا اعلان کروں گا۔ اس کے بعد میں مسجد الحرام آیا۔ قریش موجود تھے۔ میں نے کہا : قریش کے لوگو! أشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ ''میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔''
لوگوں نے کہا : اٹھو۔ اس بے دین کی خبر لو ، لوگ اٹھ پڑے۔ مجھے اس قدر مارا گیا کہ مرجاؤں لیکن حضرت عباسؓ نے مجھے آبچایا۔ انہوں نے مجھے جھک کر دیکھا، پھر قریش کی طرف پلٹ کر بولے : تمہاری بربادی ہو۔ تم لوگ غفار کے ایک آدمی کو مارے دے رہو ؟ حالانکہ تمہاری تجارت گاہ اور گزر گاہ غفار ہی سے ہوکر جاتی ہے۔ اس پر لوگ مجھے چھوڑ کر ہٹ گئے۔ دوسرے دن صبح ہوئی تو میں پھر وہیں گیا اور جوکچھ کل کہا تھا آج پھر کہا اور لوگوں نے پھر کہا: اٹھو !اس بے دین کی خبر لو۔ اس کے بعد پھر میرے ساتھ وہی ہوا جو کل ہوچکا تھا اور آج بھی حضرت عباسؓ ہی نے مجھے آبچایا، وہ مجھ پر جھکے پھر ویسی ہی بات کہی جیسی کل کہی تھی۔( صحیح بخاری : باب قصۃ زمزم ۱ؔ/۴۹۹ ، ۵۰۰ ، باب اسلام أبی ذر ۱/۵۴۴، ۵۴۵)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔