Friday 20 March 2015

بیعت کی دفعات اور مدینہ والوں کا عزم


رسول اللہﷺ نے قرآن کی تلاوت ، اللہ کی طرف دعوت اور اسلام کی ترغیب دینے کے بعد فرمایا : میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اس چیز سے میری حفاظت کرو گے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔ اس پر حضرت براء ؓ بن معرور نے آپﷺ کا ہاتھ پکڑا اور کہا:
ہاں! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے! ہم یقینا اس چیز سے آپﷺ کی حفاظت کریں گے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں...لہٰذا اے اللہ کے رسول ! آپ ہم سے بیعت لیجئے۔ ہم اللہ کی قسم! جنگ کے بیٹے ہیں اور ہتھیار ہمارا کھلونا ہے۔ ہماری یہی ریت باپ دادا سے چلی آرہی ہے۔
حضرت کعب ؓ کہتے ہیں کہ حضرت براء رسول اللہﷺ سے بات کرہی رہے تھے کہ ابو الہثیم بن تیہان نے بات کاٹتے ہوئے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہمارے اور کچھ لوگوں...یعنی یہود...کے درمیان -عہد وپیمان کی- رسیاں ہیں اور اب ہم ان رسیوں کو کاٹنے والے ہیں ، تو کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ ہم ایسا کر ڈالیں پھر اللہ آپﷺ کو غلبہ وظہور عطا فرمائے تو آپﷺ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم کی طرف پلٹ آئیں۔
یہ سن کر رسول اللہﷺ نے تبسم فرمایا، پھر فرمایا : (نہیں)بلکہ آپ لوگوں کا خون میرا خون اور آپ لوگوں کی بربادی میری بربادی ہے۔ میں آپ سے ہوں اور آپ مجھ سے ہیں۔ جس سے آپ جنگ کریں گے اس سے میں جنگ کروں گا اور جس سے آپ صلح کریں گے اس سے میں صلح کروں گا۔ (ابن ہشام ۱/۴۴۲)
بیعت کی شرائط کے متعلق گفت وشنید مکمل ہوچکی ، اور لوگوں نے بیعت شروع کرنے کا ارادہ کیا تو صفِ اول کے دو مسلما ن جو ۱۱ نبوت او ر ۱۲ نبوت کے ایام حج میں مسلمان ہوئے تھے۔ یکے بعد دیگرے اٹھے تاکہ لوگوں کے سامنے ان کی ذمے داری کی نزاکت اور خطرناکی کو اچھی طرح واضح کردیں اور یہ لوگ معاملے کے سارے پہلو ؤں کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد ہی بیعت کریں۔ اس سے یہ بھی پتہ لگانا مقصود تھا کہ قوم کس حد تک قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب لوگ بیعت کے لیے جمع ہوگئے تو حضرت عباس ؓ بن عبادہ بن نضلہ نے کہا : تم لوگ جانتے ہوکہ ان سے (اشارہ نبیﷺ کی طرف تھا ) کس بات پر بیعت کررہے ہو ؟ جی ہاں کی آوازوں پر حضرت عباسؓ نے کہا: تم ان سے سرخ اور سیاہ لوگوں سے جنگ پر بیعت کر رہے ہو۔ اگر تمہارا یہ خیال ہو کہ جب تمہارے اموال کا صفایا کردیا جائے گا اور تمہارے اشراف قتل کر دیئے جائیں گے تو تم ان کا ساتھ چھوڑ دوگے تو ابھی سے چھوڑ دو۔ کیونکہ اگر تم نے انہیں لے جانے کے بعد چھوڑ دیا تو یہ دنیا اور آخرت کی رسوائی ہوگی اور اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم مال کی تباہی اور اشراف کے قتل کے باوجود عہدنبھاؤ گے جس کی طرف تم نے انہیں بلایا ہے تو پھر بے شک تم انہیں لے لو۔ کیونکہ یہ اللہ کی قسم دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔
اس پر سب نے بیک آواز کہا : ہم مال کی تباہی اور اشراف کے قتل کا خطرہ مول لے کر انہیں قبول کرتے ہیں۔ ہاں ! اے اللہ کے رسول ! ہم نے یہ عہد پورا کیا تو ہمیں اس کے عوض کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا : جنت۔ لوگوں نے عرض کی: اپنا ہاتھ پھیلائیے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پھیلا یا اور لوگوں نے بیعت کی۔ (ایضاً ۱/۴۴۶)
حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ اس وقت ہم بیعت کرنے اٹھے تو حضرت اسعد بن زرارہ نے ... جو ان ستر آدمیوں میں سب سے کم عمر تھے...آپﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولے : اہل یثرب ! ذراٹھہر جاؤ۔ ہم آپ کی خدمت میں اونٹوں کے ۲کلیجے مار کر (لمبا چوڑا سفر کرکے ) اس یقین کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ آج آپﷺ کو یہاں سے لے جانے کے معنی ہیں سارے عرب سے دشمنی ، تمہارے چیدہ سرداروں کا قتل ، اور تلواروں کی مار۔ لہٰذا اگر یہ سب کچھ برداشت کر سکتے ہو تب تو انہیں لے چلو۔اور تمہارا اجر اللہ پر ہے اور اگر تمہیں اپنی جان عزیز ہے تو انہیں ابھی سے چھوڑ دو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ قابلِ قبول عذر ہوگا۔( مسند احمد حضرت جابرؓ سے ۳/۳۲۲۔ بیہقی ، سنن کبریٰ ۹/۹)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔