Monday 13 October 2014

تاریخ اسلام میں صحابہ کے کردار کو مجروح کرنے والی روایات پر ایک تحقیق - آخری حصہ

ابو مخنف جنگ صفین والی اپنی گھڑی ہوئی اوپر پیش کردہ روایت میں آگے حضرت علی رضی اللہ کی ایک تقریر بھی پیش کرتا ہے جو انہوں حضرت عمر و بن العاص کی اس ' جنگی چال ' کو سمجھ کر عراق والوں کے سامنے کی ۔ پڑھیے اور سردھنیے
" یہ معاویہ، یہ عمرو بن العاص، یہ ابن ابی معیط اور حبیب بن مسلمہ اور یہ ابن ابی سرح اور ضحاک بن قیس نہ اصحاب دین ہیں نہ اصحاب قرآن ، میں انہیں تم سے ذیادہ جانتا ہوں، بچپن سے ان کا میرا ساتھ رہا ہے، یہ بدترین بچے تھے اور بدترین مرد ہیں، انہوں نے قرآن بلند کرنے کی یہ حرکت محض دھوکہ دینے کے لیے کی ہے ، خود انہیں قرآن سے کچھ تعلق نہیں ہے"۔
کیا اس پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ داماد رسول حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان جلیل القدر اصحاب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن ابی معیط رضی اللہ عنہ حضرت حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ حضرت ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ اور حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتنی بازاری زبان استعمال کی ہو ؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اعتماد یافتہ صحابیوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ دین وایمان سے خارج گردان سکتے تھے ؟ بدترین بچے اور بدترین مرد کون ہیں ؟ وہ کاتب وحی حضرت معاویہ رضی اللہ جن کے لیے حضور نے ھادی ومہدی کی دعا کی ، وہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جنکو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے غزوہ ذات السلاسل کا کمانڈر مقر ر فرمایا اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ جیسے اجلہ صحابہ کو انکی ماتحتی میں جہاد کرنے کے لیے بھیجا اور اپنی وفات تک انہیں عمان کا والی مقرر کیے رکھا ؟ کیا یہ اپنے مقصد کے لیے قرآن شہید کر ان کے اوراق نیزوں پر بلند کراسکتے ہیں؟، کیا ان کے ساتھ پانچ سو لوگ اور صحابہ قرآن کی اس طرح بے حرمتی کرسکتے ہیں اور پھر خود حضرت علی رضی اللہ عنہ قرآن کے نیزوں پر بلند ہونے کے بعد بھی ایسی جنگ جاری رکھنے کے لیے تقریر کرسکتے ہیں جس کے نتیجے میں قرآن کا لوگوں کے پاؤں تلے روندھے جانے کا خدشہ ہو ؟ 

غور فرمائیں کہ یہ سبائی دروغ گو راوی صحابہ و اہلبیت کے کردار کو مجروع کرنے کے لیے کس حد تک گئے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذمہ بھی ایک ایسی تقریر لگادی جو بالکل ان کے شایان شان نہیں۔ اور پھر حیرت ہے ان سنی مورخین پر جنہوں نے بغیر تحقیق کے ان کہانیوں کو اسلامی تاریخ کے نام پر اپنی کتابوں میں ذکر کردیا ۔ مزید حضرت علی رضی اللہ عنہ کیسے حضرت معاویہ کے خلاف یہ زبان درازی کرسکتے ہیں حالانکہ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ خودلوگوں کو اس سے روکتے تھے ۔
"جنگ صفین کے سلسلے میں جو لوگ حضرت معاویہ کے متعلق زبان درازی کرتے تھے، تو آپ نے انہیں اس سے روک دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ امارت معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا نہ سمجھو، کیونکہ وہ جس وقت نہ ہوں گے تو تم سروں کو گردنوں سے اڑتے ہوئے دیکھو گے ۔
( تاریخ ابن کثیر جلد8 صفحہ 131)
حقیقت میں جنگ صفین کو ختم کروا کر ثالثی کے ذریعے مستقل جنگ بندی کروادینا ہی حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کا وہ کارنامہ تھا جس نے سبائیوں کی مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لیے کی جانے والی ساری محنتوں اور تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا ، اس لیے انہوں نے انہی واقعات کو لے کر انکی کردار کشی کی مہم چلائی ۔

افسوس یہ ہے کہ ابو مخنف کے بیانات کو تاریخ طبری کے صفحات میں دیکھ کر بلا تحقیق اسے نقل کرنے والوں نے سبائیوں کے ہاتھ اتنے مضبوط کردیئے ہیں کہ آج یہ روایتیں ہماری ایف اے ، بی اے، ایم اے کی تاریخ اسلام کی درسی کتابوں میں بھی بغیر کسی تحقیق و تبصرہ کے اسی طر ح نقل ہوتی آرہی ہیں اور امت کا ایک اچھا خاصہ طبقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعمد صحابہ حضرت معاویہ، حضرت عمرو بن العاص، حضرت ابو موسی اشعری رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے سوء ظنی کا شکار ہے۔

اوپر تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ ساری داستانیں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ کے کردار کو مجروح کرنے کے لیے وضع کی گئیں ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ہماری اس تفصیل کا مطلب یہ نہیں کہ صحابہ میں اختلاف ہو ا ہی نہیں یا ان سے غلطی ہو ہی نہیں سکتی ، ہم اس بات کے قائل ہیں کہ صحابہ معصوم عن الخطا نہیں ہیں ، بعض احادیث میں بھی انکے اختلاف اور غلطیوں کا ذکر ہے ، ہمارا اختلاف ان تاریخی روایات پر ہے جن میں تمام صحابہ پر کرپشن، اقربا پروری، منافقت، سیاسی جوڑ توڑ اور کھینچا تانی کے الزامات ہیں۔ قرآن و حدیث تمام صحابہ کے عادل ہونے پر شاہد ہیں ہی ، تاریخ سے بھی سیکڑوں مثالیں دیں جاسکتیں ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کا اختلاف شرعیت کے مطابق ہوتا تھا اور ان کا دامن ان گالیوں اور غیر اخلاقی زبان کے استعمال سے پاک ہوتا تھاجو انکے اختلاف کے واقعات میں سبائیوں راویوں کی ان روایتوں میں ان کے ذمہ تھونپی گئی ہیں۔ 
صحابہ اختلاف کے اصولوں جو انہیں دین نے سکھائے تھے' کے پوری طرح پابند تھے انکے اختلاف میں بھی امت کے لیے نمونہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی اور معاویہ کے درمیان قاتلان عثمان کے مسئلہ پر اختلاف کے باوجود ادب و احترام کا تعلق تھا ،چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ دینی مسئلے پر فتوی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہی لیتے تھے ۔ مزید شیعہ کی اپنی کتابیں گواہ ہیں کہ حضرت علی، حسن اور حسین رضی اللہ عنہ ، حضر ت عبداللہ بن عباس رضی اللہ حضرت معاویہ کا احترام کرتے اور انکے اختلاف کو دینی اختلاف سمجھتے تھے۔ مضمون کی طوالت کے ڈر سے ہم صرف علی رضی اللہ عنہ کا حوالہ دیتے ہیں۔ شیعہ کی مشہور کتاب نہج البلاغہ میں ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تمام شہریوں کی طرف گشتی مراسلہ جاری کیا کہ صفین میں ہمارے اور اہل شام کے درمیان جو جنگ ہوئی اس سے کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو، ہمارا رب، نبی اوردعوت ایک ہے ۔ ہم شامیوں کے مقابلے میں اللہ و رسول پر ایمان و یقین میں ذیادہ نہیں اور نہ وہ ہم سے ذیادہ ہیں ۔ ہمارا اختلاف صرف قتل عثمان میں ہے ۔
( نہج البلاغہ جلد2، صفحہ 114)
اللھم ثبت قلبی علی دینک

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔