Friday 10 October 2014

اسلامی تاریخ میں گمراہ کن روایات کی ملاوٹ کیسے ؟؟

اسلامی تاریخ پر لکھی گئی کوئی کتاب جب کسی مسلمان قاری کے مطالعہ میں آتی ہے تو وہ قرون اولی اور صحابہ کی زندگی کے واقعات کو اسی حسن ظن اور عقیدت کے ساتھ پڑھنا شروع کرتا ہے جو قرآن و حدیث کے ذریعے اس کے ذہن میں بیٹھی ہوتی ہے، لیکن آہستہ آہستہ جب تاریخ اپنا رنگ دکھانا شروع کرتی ہے اور وہ صحابہ کے کردار کو مجروح کرنے والی روایات پڑھتا ہے تو پریشان ہو جاتا کہ یہ کیسے خیرالقرون کا تذکرہ ہے؟ قرآن نے تو ہمیں بتاتا ہے کہ تم نے ایمان لانا ہے تو اس طرح ایمان لاؤ جس طرح یہ صحابہ لائے تب تمہار ا ایمان قابل قبول ہوگا، اور تاریخ انہیں بے ایمان ثابت کررہی ہے ۔ ۔ قرآن وحدیث انکی صداقت، شجاعت، اخلاص، سچاہی، ہدایت یافتہ ہونے کے سرٹیفکیٹ دیتے نظر آتے ہیں (اولئک ھم الراشدون، مفلحون، صدیقون وغیرہ)اور تاریخ ( نعوذ بااللہ) انہیں چور ، ڈاکو ، مکار، منافق اور بد اخلاق ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ باتیں اسکے لیے بہت عجیب اوراسکی توقعات کے بالکل برعکس ہوتی ہیں۔ شاید اس میں قصور کتاب کے فرنٹ پیج پرتاریخ کے ساتھ استعمال کیے گئے لفظ 'اسلام' کا بھی ہوتا ہے جو قاری کو شروع میں ہی اعتماد دلا دیتا ہے اور وہ اسے ایک اسلامی کتاب والے جذبے سے پڑھنا شروع کرتا ہے لیکن پھر دروغ گو راویوں کی ملاوٹ، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری اسے کنفیوز کردیتی ہے.
ہم اگلی تحاریر میں اس پر تفصیلی تبصرہ کریں گے کہ تاریخ اسلام میں یہ ملاوٹ کیسے ہوئی فی الحال اک عام وجہ لکھ دیتے ہیں وہ یہ کہ انسانی تاریخ میں جب بھی ایک قوم و قبیلہ یا جماعت و پارٹی کی حکومت و اقتدار کو ختم کر کے دوسری مقابل قوم و قبیلہ یا جماعت و پارٹی بر سرِ اقتدار آتی ہے تو وہ اپنے پیش رو حکمرانوں کی تمام خوبیوں ، محاسن ، اور تعمیری کاموں کو بھی خامیوں ، برائیوں اور تخریب باور کروانے کے لیے پوری حکومتی مشینری کے ساتھ مل کر ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے، تدوینِ تاریخ اسلامی کے وقت بھی یہ نفسیاتی ضابطہ کار فرما رہا. 
مشہور موٴرخ علامہ شبلی نعمانی رحمة اللہ علیہ نے اپنی تصنیف” الإنتقاد علی التمدن الإسلامي“ میں اسلامی تاریخ کی ابتدائی تدوین کا بہترین جائزہ پیش کیا ہے، اس اک خامی کے متعلق لکھتے ہیں : ” اسلامی تاریخ کے موٴرخین عموماً بنو عباس کے عہد میں (پیدا) ہوئے اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ عباسیوں کے عہد میں بنو امیہ کی خوبی کی کوئی چیز (بھی) اتفاقاً صادر ہوجاتی تو اس کے قائل کو کئی قسم کی ایذاوٴں کا سامنا کرنا پڑتا اور ہتکِ عزت کے علاوہ ناموافق انجام سے بھی دو چار ہونا پڑتا تھا، دفترِ تاریخ میں اس قسم کی کئی مثالیں موجود ہیں “۔
اس بات کے علاوہ تاریخی واقعات کو نقل کرنے والے راویوں کے نظریات اور مذہبی رجحانات نے بھی ان واقعات کو بیان کرنے اور اس کے لیے اختیار کی جانے والی تعبیر میں مرکزی کردار ادا کیا، خصوصاً جب انھیں روایت با لمعنی کی عام اجازت بھی حاصل تھی؛ چناں چہ بہت سارے گمراہ عقائد و افکار کے حامل راویوں نے قرونِ ثلاثہ سے متعلق واقعات کو اپنے مذہبی رجحانات و نظریاتی افکار کے تحت حقائق کو نظر انداز کرکے اس طرح بیان کیا کہ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین کے بارے میں بہت سارے مطاعن پید ہوتے چلے گئے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔