Thursday 19 May 2016

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زہد و تقوی


حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالٰی سے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں دنیا سے اٹھا اور مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر فرمایا ۔( جامع الترمذی)
ایک صحابی سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کے اہل مجلس ایک مرتبہ دولت مندی اور دنیاوی خوش حالی کا کچھ تذکرہ کرنے لگے ( یہ چیز اچھی ہے یا بری اور دین اور آخرت کے لئے مضر ہے یا مفید ) تو آپﷺ نے اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا : کہ جو شخص للہ سے ڈرے (اور اس کے حکام کی پابندی کرے )تو اس کے لئے مالداری میں کوئی مضائقہ نہیں اور کوئی حرج نہیں اور صحت مندی صاحب تقوی کے لئے دولت مندی سے بھی بہتر ہے اور خوش دلی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہے ( جس پر شکر واجب ہے )۔ (معارف الحدیث)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عروہؓ سے فرمایا ،میرے بھانجے ہم ( اہل بیت اس طرح گذارا کرتے تھے ) کہ کبھی کبھی لگاتار تین تین چاند دیکھ لیتے تھے ( یعنی کامل دو مہینے گذر جاتے تھے )اور حضورﷺ کے گھروں میں چولہا نہ جلتا تھا (عروہؓ کہتے ہیں ) میں نے عرض کیا پھر آپ کو کونسی چیز زندہ رکھتی تھی ؟ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا بس کھجور کے دانے اور پانی ، البتہ حضورﷺ کے بعض انصاری پڑوسی تھے ان کے ہاں دودھ دینے والے جانور تھے وہ آپ ﷺ کے لئے دودھ بطور ہدیہ بھیج دیا کرتے تھے اس میں سے آپﷺ ہمیں بھی دیتے تھے ۔ (متفق علیہ: بخاری )
عبد اللہ بن شخیر سے روایت ہے کہ آپﷺ برابر مغموم رہتے تھے ، کسی وقت آپ کو چین نہیں آتا تھا ( یہ کیفیت فکر آخرت کی وجہ سے تھی ) اور دن میں ستّر یا سوبار استغفار فرماتے تھے ، ۔ یہ یا تو امت کی تعلیم کے لئے تھا یا خود امت کے لئے مغفرت طلب کرنا مقصود تھا ، یا پھر اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ دریائے قرب وعرفان میں مستغرق رہتے تھے اور آناً فاناً اس میں ترقی ہوتی رہتی تھی ۔ (نشر الطیب؛ اشرف علی تھانوی ص ۶۷ : مکتبہ لدھیانوی )
آپ نے زہد و قناعت کی تعلیم دی تو پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔ فتوحات کی وجہ سے جزیہ، زکوٰۃ، عشر او رصدقات کے خزانے لدے چلے آتے تھے مگر آپ کے گھر میں وہی فقر و فاقہ تھا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: رسول اللہ 1رحلت فرماگئے مگرآپ کو دو وقت بھی سیر ہو کرکھانا نصیب نہ ہوا۔ آپ کی رہائش ایک کمرہ تھی جس کی دیوار کچی اور چھت کھجور کے پتوں اور اونٹ کے بالوں سے بنی تھی۔ آپ کا کپڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا جاتا تھا، یعنی جو بدنِ مبار ک پر کپڑا ہوتا تھا، اس کے سوا کوئی اور کپڑا ہی نہیں تھا جو تہہ کیا جاتا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔