Wednesday 18 February 2015

طائف کا سفر


ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد قریش کو کس کا پاس تھا ، اب وہ نہایت بے رحمی اور بے باکی سے حضور ﷺ کو ستانے لگے ، راستہ میں آپﷺ پر غلاظت ڈالی جاتی اور کانٹے بچھائے جاتے ، گالیاں دی جاتیں. اہل مکہ سے مایوسی ہوکر حضور ﷺ اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ بن حارثہ کوساتھ لے کر ۲۷ شوال ۰ ۱ نبوت م ۶۱۹ ء پا پیا دہ طائف روانہ ہوئے جو مکہ سے تقریباََ ۵۰ میل کے فاصلہ پر بہ جانب مشرق ایک پہاڑی علاقہ اور سر سبز و شاداب مقام ہے۔
وہاں آپ کا قیام دس روز رہا، بعض نے بیس روز اور ایک مہینہ بھی لکھا ہے،اس زمانہ میں طائف بنو ثقیف کے قبضہ میں تھا، مکہ کے سرداروں کے وہاں باغات تھے، وہ لات کے پرستار تھے اور اسے خدا کی بیٹی مانتے تھے، ان دنوں عمرو بن عمیر بن عوف کے تین لڑکے عبد یا لیل ، مسعود اور حبیب بنی ثقیف کے سردار تھے، ان میں سے ایک کی بیوی صفیہ بنت معّمر تھی جس کا تعلق قریش کے قبیلہ بنی جمح سے تھا، چونکہ بنی سعد کا قبیلہ طائف کے قریب تھا اور جہاں آپﷺ نے اپنے ایام رضاعت گذارے تھے اس لئے حضورﷺکو اہل طائف سے خیر کی امید تھی، چنانچہ طائف جاتے ہوئے آپﷺ راستہ کے تمام قبائل میں اسلام کی تبلیغ کرتے رہے ، طائف میں آپﷺ نے مذکورہ بالا تینوں سرداروں سے ملاقات کی اور انھیں اسلام کی دعوت دی اور اپنی مدد کی درخواست کی ؛لیکن ان تینوں نے نہایت گستاخانہ جواب دیا،
ایک نے کہا : تمہارے سوا اللہ کو اور کوئی نہ ملا جسے نبی بناتا ؟ دوسرے نے کہا : کعبۃ اللہ کی اس سے بڑی اور کیا توہین ہوگی کہ تم سا شخص پیغمبر ہو ؟ تیسرا بولا : میں تم سے ہر گز بات نہ کروں گا ، اگر تم سچے ہو تو تم سے گفتگو خلافِ ادب ہے اور اگر جھوٹے ہو تو گفتگو کے قابل نہیں۔
ان بد بختوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا ، طائف کے بازاریوں اور اوباشوں کو آپﷺ کے پیچھے لگا دیا کہ وہ آپ ﷺ کا مذاق اڑائیں ، چنانچہ انھوں نے راستہ سے گذرتے وقت آپﷺ پر پتھر مارنے شروع کردئے، حضرت زید ؓبن حارثہ ان پتھروں کے لئے سپر بن جاتے یہاں تک کہ ان کا سر پھٹ گیا، حضورﷺ کا جسم لہو لہان ہوگیا اور آپﷺ کی جو تیاں خون سے بھر گئیں ، جب آپﷺ زخموں سے چور ہوکر بیٹھ جاتے تو بازو تھام کر کھڑا کردیتے اور پھر آپﷺ جب چلنے لگتے تو پتھر برساتے ، ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور تالیاں بجاتے ، پتھروں کے برسانے سے آپﷺ کوبہت چوٹیں آئیں اور آپ ﷺ زخموں سے بے ہوش ہوکر گر پڑے .
حضرت زیدؓ آپﷺ کو اپنی پیٹھ پر اٹھا کر آبادی سے باہر لے آئے ، حضور ﷺ کو اپنی پیٹھ پر بٹھانے کی سعادت سب سے پہلے حضرت زیدؓ کے حصہ میں آئی، (بعد میں سفرِ ہجرت کے دوران حضرت ابو بکرؓ نے آپﷺ کو اپنی پیٹھ پر بٹھایا، جنگ اُحد میں زخمی ہوکر حضورﷺنے ایک چٹان پر چڑھنا چاہا لیکن زخموں کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے ، اس وقت حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ نے آپﷺ کواپنی پیٹھ پر اٹھایا تھا،)بعد میں حضرت زیدؓنے پانی سے زخموں کو دھویا اور آپﷺ کچھ افاقہ محسوس کرنے لگے تو زبان ِ مبارک سے دعا نکلی" اے اللہ !میں اپنی کمزوری اور بے بسی کی تجھ سے شکایت کرتا ہوں ، اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں "
اسی حالت میں آپﷺ چل پڑے اور کچھ دور جانے کے بعد آپﷺ نے نظر اُٹھائی تو ایک ابر سایہ کئے ہوئے دکھائی دیا، اس میں سے حضرت جبریلؑ نے آواز دی:اللہ نے وہ سب کچھ سن لیا ہے جو آپﷺ کی قوم نے آپﷺ سے کہا ہے ، اس وقت پہاڑوں کا فرشتہ آپﷺ کے سامنے حاضر ہے، آپﷺ فرمائیں تو انھیں دونوں پہاڑوں کے درمیان کچل کر رکھ دوں ،لیکن آپﷺ نے فرمایا : نہیں مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشت سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اس کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں گے( سیرت احمد مجتبی- مصباح الدین شکیل)

صحیحین کی حدیث ہے کہ حضرت عائشہؓ نے ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ سے پوچھا کہ جنگ احد کے دن سے (جس دن حضور ﷺ کے دندان مبارک شہید ہو گئے تھے اور خود کی کڑیاں چہرے مبارک میں چبھ گئی تھیں اور آنحضرت ﷺ ایک خندق میں گر گئے تھے) کبھی زیادہ تکلیف آپﷺ کو پہنچی تو آپﷺ نے فرمایا: ہاں! اس دن جس دن میں نے عبد یالیل پر اسلام پیش کرکے اس کی دعوت دی تھی اور انھوں نے رد کر دی تھی، جب وہاں سے پلٹے تو قرن ثعارب تک ( یہ مکہ اور طائف کے درمیا ن ایک پہاڑ کا نام ہے) بے ہوشی کے عالم میں آئے ، احد کے دن سے زیادہ تکلیف مجھ کو اس روز پہنچی تھی، آخر میں آپﷺ شہر سے دور ایک باغ میں انگور کی بیل کے نیچے جاکر ٹھہرے جو رئیس مکہ ربیعہ کے بیٹوں عتبہ اور شیبہ کا تھا جو باوجود کفر کے شریف الطبع اور نیک نفس تھے.
اس باغ میں بیٹھ کر آپﷺ نے دعا فرمائی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہے، اس دعا کے ایک ایک فقرہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ طائف کے لوگوں نے آپﷺ سے جو بدسلوکی کی اور کوئی بھی ایمان نہ لایا اس کی وجہ سے آپﷺ کس قدر مغموم اور رنجیدہ تھے، آپﷺ نے فرمایا:
بار الٰہا ! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتاہوں، یا ارحم الراحمین تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا رب ہے ، تو مجھے کس کے حوالہ کر رہاہے؟ کیا کسی بے گانہ کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملہ کا مالک بنا دیا ہے ؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ؛لیکن تیری عافیت میرے لئے زیادہ کشادہ ہے، میں تیرے چہرہ کے اس نور کی پناہ چاہتاہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پر دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو، تیری رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں.
جب عتبہ نے آپﷺ کو اس حالت میں دیکھا تو اپنے غلام کے ذریعہ جس کا نام عدّاس تھا ایک انگور کا خوشہ آپﷺ کے پاس بھجوایا ، آپﷺ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہہ کر اپنے منہ میں رکھا، عدّاس حیرت سے آپﷺ کی صور ت دیکھنے لگا اور خیا ل کیا کہ یہ تو ایسی بات ہے جو کافرانہ شعار سے جدا ہے ، آنحضرت ﷺنے پوچھا ، تم کہاں کے ہو اور تمھارا دین کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ وہ عیسائی ہے اور نینویٰ کا رہنے والا ہے، حضورﷺ نے فرمایا ! کیا تم اس صالح انسان کی بستی کے ہوجن کانام یونس بن متی تھا ،
عدّاس نے پوچھا کہ آپﷺ کس طرح انھیں جانتے ہیں تو حضورﷺ نے جواب دیا کہ وہ میرے بھائی ہیں، وہ بھی نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں ، عدّاس نے آپﷺ کا نا م پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا" محمد" تب عدّاس نے کہا کہ میں نے توریت میں آپﷺ کا اسمِ مبارک دیکھا ہے اور آپﷺ کے اوصاف بھی پڑھے ہیں ، پھر اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کو اہل ِمکہ میں مبعوث فرمائے گا اور اہلِ مکہ آپﷺ کی اطاعت سے انکار کریں گے؛ لیکن آخر میں فتح آپﷺ ہی کی ہوگی، اور یہ دین تمام دنیا میں پھیل جائے گا ، اس کے بعد اس نے کہا کہ،میں ایک عرصہ سے یہاں آپﷺ کے انتظار میں ہوں ، مجھے اسلام کی تعلیم دیجئے، آپﷺ کے اسلام پیش فرمانے پر وہ فوری مسلمان ہوگیا اور جھک کر حضور ﷺ کے سر، ہاتھ اور پاؤں چومنے لگا، واپس آکر اس نے کہا کہ انھوں نے مجھے ایسی بات بتائی جسے نبی کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا، عتبہ اور شیبہ نے کہا : کمبخت کہیں وہ تجھے تیرے دین سے برگشتہ نہ کردے ، تیرا دین تو اس کے دین سے بہتر ہے
(ابن ہشام ، پیغمبر عالم - مولانا عبدالصمد رحمانی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔